وزیر اعظم مودی / ویڈیو گریب
وزیر اعظم نریندر مودی کا طویل انتظار کے بعد ہونے والا منی پور کا دورہ آج اس وقت ہو رہا ہے جب ریاست میں نسلی تشدد کو شروع ہوئے دو سال سے زیادہ گزر چکے ہیں۔ اس تشدد میں 260 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، لاکھوں بے گھر ہوئے اور سماجی خلیج مزید گہری ہو گئی۔ یہ دورہ مختصر مگر مصروف ہے اور مئی 2023 میں میتئی اور کوکی کے درمیان شروع ہونے والی جھڑپوں کے بعد وزیر اعظم کا پہلا براہِ راست دورہ ہے، یہ وہ بحران ہے جس نے شمال مشرق کی حالیہ دہائیوں کے سب سے بڑے انسانی المیہ کی صورت اختیار کی۔ منی پور ہی نہیں، پورے ملک میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ آخر اتنی تاخیر کے بعد، اب کیوں؟ اور کس محرک نے اچانک وزیر اعظم کو ایک ایسی ریاست کی طرف متوجہ کیا جو اب بھی کشیدگی اور شکوک میں ڈوبی ہوئی ہے؟
Published: undefined
مودی کے اس دورے کے وقت پر زبردست بحث چھڑ گئی ہے۔ دو سال تک ان کی غیر موجودگی کو اپوزیشن نے بار بار نشانہ بنایا۔ کانگریس سمیت کئی جماعتوں نے مودی اور مرکز پر الزام لگایا کہ انہوں نے منی پور کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ خاص طور پر 2023 کے وسط میں جب جنسی تشدد اور بڑے پیمانے پر بے گھر ہونے کی تصاویر قومی میڈیا میں آئیں تو یہ آواز اور بھی بلند ہو گئی۔ پارلیمانی بیانات اور دہلی سے متعدد اعلانات کے باوجود عوام کے دل میں یہ شکوک باقی رہے کہ مرکز واقعی ریاست کے زخموں کو بھرنے میں سنجیدہ ہے یا نہیں۔
Published: undefined
- قومی و بین الاقوامی دباؤ: منی پور کے حالات پر اندرونِ ملک ہی نہیں بلکہ بیرونِ ملک بھی انسانی حقوق کے حوالے سے مسلسل منفی رپورٹنگ نے حکومت پر دباؤ بڑھایا۔
- صدر راج اور انتخابی پہلو: فروری 2025 سے منی پور میں صدر راج نافذ ہے اور نئے اسمبلی انتخابات کے آثار ہیں۔ اس دورے کو بی جے پی کی شمال مشرقی حکمتِ عملی سے براہ راست جوڑا جا رہا ہے۔
- اعتماد کی بحالی: حکومت یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کا اعلان اور متاثرین سے ملاقات مرکزی حکومت کی ذمہ داری کا اظہار سمجھا جا رہا ہے۔
Published: undefined
منی پور سے موصول ہونے والی زمینی رپورٹس عوامی جذبات کی تقسیم واضح کرتی ہیں۔ بہت سے لوگ اس دورے کو توقعات سے بہت کم اور بہت دیر سے ہونے اٹھایا ہوا قدم قرار دیتے ہیں۔ بحران کے عروج پر وزیر اعظم کی غیر حاضری نے عوام کے دل میں دہلی کی ہمدردی اور انتظامی صلاحیت پر اعتماد کو مجروح کیا۔ سرگرم کارکن اور کئی مقامی گروہ چاہے چراچاندپور (کوکی-زو اکثریتی علاقہ) ہو یا امپھال (میتئی اکثریتی وادی)، اس دورے کو علامتی اور اصل مسائل سے دور سمجھتے ہیں۔
بائیکاٹ کی کال: وادی میں سرگرم عسکری تنظیم ’کورکوم‘ نے مودی کے پروگراموں کے بائیکاٹ کی اپیل کی۔
احتجاج اور تخریب کاری: چراچاندپور میں کئی مقامات پر پروگرام کی تیاریوں کو نقصان پہنچایا گیا، جو عوامی ناراضگی کو ظاہر کرتا ہے۔
ریلیف کیمپ: ہزاروں افراد آج بھی کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، خاص طور پر کوکی-زو برادری۔ ان کی ترجیحات صرف اعلانات نہیں بلکہ مستقل بحالی اور انصاف ہیں۔
Published: undefined
وزیر اعظم کا شیڈول نہایت سخت اور مختصر ہے۔ وہ:
- 8,500 کروڑ روپے سے زیادہ کے منصوبوں کا افتتاح کریں گے، جن میں منی پور پولیس ہیڈکوارٹر (101 کروڑ)، سول سکریٹریٹ (538 کروڑ)، اہم سڑکیں اور ’منی پور انفوٹیک ڈویلپمنٹ‘ (ایم آئی این ڈی، مائنڈ) پروجیکٹ (550 کروڑ) شامل ہیں۔
- متاثرین سے ملاقات کریں گے، چراچاندپور اور امپھال میں الگ الگ تقریبات منعقد ہوں گی تاکہ دونوں بڑی برادریوں کو الگ الگ مخاطب کیا جا سکے۔
تاہم کسی آل پارٹی میٹنگ یا کھلے مکالمے کا اعلان نہیں کیا گیا، جو مفاہمت کی کمی پر تنقید کا سبب ہے۔
Published: undefined
اہم سوال یہ ہے کہ آیا یہ دورہ واقعی امن کی بحالی میں مددگار ثابت ہوگا یا محض سیاسی نمائش ہے۔ ماہرین اور زمینی مبصرین کے مطابق:
علامتی اقدامات بمقابلہ حقیقی اصلاحات: بڑے منصوبوں کا اعلان متاثرین کے زخم نہیں بھر سکتا۔ معافی یا تاخیر کا اعتراف شاید زیادہ کارآمد ہوتا۔
محدود رابطے: اپوزیشن ایم ایل ایز، سول سوسائٹی یا متاثرہ گروپوں سے ملاقات نہ کرنا اس تاثر کو مضبوط کرتا ہے کہ حکومت صرف نمائش چاہتی ہے۔
انتخابی پس منظر: یہ دورہ ممکنہ انتخابات سے قبل بی جے پی کے کھوئے ہوئے قدم واپس جمانے کی کوشش بھی ہے۔
Published: undefined
منی پور کے عوام کی توقعات واضح ہیں:
- ریلیف کیمپوں میں موجود ہزاروں افراد کی مستقل بحالی اور بازآبادکاری۔
- تشدد کے دوران ہونے والے جرائم پر انصاف اور ذمہ داری کا تعین، خاص طور پر خواتین کے خلاف سنگین مظالم۔
- اقلیتوں اور متنازعہ علاقوں کے لیے مزید سیکورٹی اقدامات۔
- دونوں برادریوں کو ایک میز پر بٹھا کر مستقبل کے لیے ٹھوس ضمانتیں۔
- ان میں سے کسی بھی پہلو کو نظرانداز کرنا اس دورے کو محض ’’سیاسی تماشا‘‘ بنا سکتا ہے۔
Published: undefined
کوئی ایک دورہ دو سال کی تکالیف اور خلیج کو ختم نہیں کر سکتا۔ مگر ایک ایسے خطے کے لیے جو دہلی کی توجہ کا عادی نہیں، یہ دورہ اپنی علامتی اہمیت رکھتا ہے۔ مودی اور بی جے پی کے لیے امید یہ ہے کہ یہ قدم کم از کم شروعات کا پیغام دے اور ریاست کے مستقبل پر کچھ سرمایہ لگانے کی آمادگی دکھائے۔
عوام کے لیے اصل سوال یہی ہے کہ کیا یہ دورہ محض وقتی اعلانات تک محدود رہے گا یا واقعی انصاف، امن اور بحالی کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔ اصل فیصلہ آنے والے مہینوں کے عملی اقدامات پر ہوگا، نہ کہ آج کے بیانات پر۔
آخرکار، مودی کا یہ دورہ ایک ایسا سیاسی جوا ہے جو یا تو امن کی بنیاد رکھ سکتا ہے یا پھر تقسیم کو مزید گہرا کر سکتا ہے، اگر بحالی اور انصاف کے وعدے ایک بار پھر ادھورے رہ گئے۔
(مضمون نگار حسنین نقوی، سینٹ زیویئرز کالج، ممبئی کے شعبۂ تاریخ کے سابق رکن ہیں)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined