فکر و خیالات

موتی لال وورا: صاف ستھری سیاسی صحافت کے ایک دور کا خاتمہ... مرنال پانڈے

وورا جی جیسی سادگی پسند، ملنسار اور اپنائیت سے بھرپور شخصیت کا چلا جانا ہم سب کو ایک ایسے اکیلے پن کے گہرے احساس سے بھر گیا ہے جو گھر کے معزز بزرگ کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد ہوتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

ہندی کی صحافت خود مختار شکل میں پیدا ہوئی اور خود مختاری کے ساتھ ہی جمہوری سیاست کی سچی شراکت دار بنی ہے۔ موتی لال وورا جی اس روایت کی ایک نایاب کڑی تھے۔ ان کی قربت اور رہنمائی پانا میرے لیے ذاتی طور پر اور صحافتی طور پر، دونوں ہی نظریے سے ایک حصولیابی رہی۔ بڑھتی عمر اور کمزور پڑتے جسم کے باوجود عزت مآب وورا جی ہم سب ایسو شی ایٹیڈ جرنلس کے ملازمین کے لیے آخر تک ایک بڑے اور سایہ دار درخت بنے رہے۔

Published: undefined

ایک ایسی سادگی پسند، ملنسار اور اخلاص سے بھرپور شخصیت کا چلا جانا، جس کے دروازے اپنے چاہنے والوں، دوستوں کے لیے جب بھی ضرورت ہو، ہمیشہ کھلے رہیں، ہم سب کو ایک ایسے اکیلے پن کے گہرے احساس سے بھر گیا ہے جو گھر کے معزز بزرگ کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد ہوتا ہے۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے اپنے قریبی دوست اور ساتھی احمد پٹیل جی کے انتقال پر لکھی ان کی تکلیف دہ اور مایوس سطریں لگتا ہے ایک طرح سے ہمارے درمیان سے ان کی اپنی خاموش وداعی کا ماحول تیار کر رہی تھیں۔

Published: undefined

آج کی موقع پرست سیاست میں، جس کا عوام یا ادب و نظریات کی دنیا سے کوئی رشتہ نظر نہیں آت،ا ایک صحافتی زندگی سے شروعات کرنے والے ادب اور ادیبوں کے لیے گہری عزت کا جذبہ رکھنے والے وورا جی ایک نایاب آرکڈ کی طرح تھے۔ سال 96-1993 تک جب وہ اتر پردیش کے گورنر تھے، میری والدہ شیوانی جی سے لکھنؤ میں ان کا بہت قریبی رابطہ رہا۔ 1996 میں جب ’انٹرنل بلیڈنگ‘ سے شیوانی جی اچانک بے حد نازک دور سے گزر رہی تھیں، انھوں نے جس رحم دلی کے ساتھ اپنا سرکاری طیارہ ان کو دہلی لانے کے لیے دستیاب کرا دیا، وہ آج کے ماحول میں حیرت انگیز ہے۔

Published: undefined

بعد میں ان کی حالت بہتر ہونے پر جب میں وورا جی کو فیملی کی جانب سے شکریہ ادا کرنے کے لیے ملی، انھوں نے انتہائی محبت کے ساتھ کہا ’’دیکھو، شیوانی جی صرف تمھاری ماں ہی نہیں، ہمارے ہندی ادب کی بہت بڑی ہستی بھی ہیں۔ یہ تو میرا فرض تھا۔‘‘ سچا ادیب کس طرح سیاست کی انسان سازی کر سکتا ہے، اور سیاست ایک اچھے انسان سے جڑ کر کس حد تک انسانی سروکار بنا سکتی ہے، اس کے ظاہری شکل سے میں اسی دن متعارف ہوئی۔

Published: undefined

ہمارے پبلشنگ گروپ اور اس کی بنیاد رکھنے والی پارٹی کے تئیں تو وورا جی کا خلوص بہت گہرا تھا۔ ان کے دل و دماغ کے راستے کئی سمتوں، کئی کھڑکیوں میں کھلتے تھے، اس لیے سیاسی نظریات کی زیادتیوں یا پیچیدگیوں کے وہ کبھی شکار نہیں بنے۔ جب کبھی ملتے اپنے سے کہیں کم تجربہ اور عمر والوں سے بھی وہ ہمیشہ ایک طفلانہ جوش سے جاننا چاہتے تھے کہ ہندی میں ان دنوں کیا کچھ لکھا جا رہا ہے۔ صحافت کی سمت و رفتار پر ہماری کیا رائے ہے؟

Published: undefined

آج جب کہ روز بروز سیاست میں ریاست اور طاقت کے بے رحم اور بربریت والی شکلوں نے سیاست کے شعبہ میں آرٹ اینڈ کلچر پر کسی بھی طرح کی حساس بات چیت کے امکان کو مٹا ڈالا ہے، وورا جی کا جانا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ وہ اس لبرل سیاسی کلچر کے چند بچ رہے علم برداروں میں سے تھے جن کا رول ماڈل گاندھی، نہرو، آچاریہ نریندر دیو اور کرپلانی جیسے دانشور اور باوقار سیاسی لیڈر رہے۔ وہ مانتے تھے کہ مذہب یا روایتی تعلیم و تعلم نہیں، سیاست سے ہی عام آدمی کی زندگی میں صحیح تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ریاست میں آرٹس سیاست کے یکساں برابر دھارائیں بنی رہیں۔ ان کو سیاست کی دَبّو، ماتحت یا سیاسی لیڈروں کے رحم و کرم پر منحصر نہیں سمجھا جائے۔

سیاست کی ساری ہڑبڑی اور آپا دھاپی کے درمیان بھی اپنی ٹیم کو لگاتار دانشمندی، دماغی تازگی اور کھلے پن کا خوشنما احساس دینے والے اپنے ادارہ کی اس عظیم ہستی کو ہمارا پرخلوص خراج عقیدت۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined