سید عابد حسن / اے آئی سے بہتر کی گئی تصویر
میجر سید عابد حسن زعفرانی حیدرآبادی نے نہ صرف تحریک آزادی میں سرگرم کردار ادا کیا بلکہ ’جے ہند‘ جیسا تاریخی نعرہ تخلیق کیا، جو آج بھی قومی شناخت کا اہم حصہ ہے۔ مزید برآں، سبھاش چندر بوس کو ’نیتا جی‘ کا خطاب دینے کا سہرا بھی انہی کے سر جاتا ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے جذبے کے تحت انہوں نے اپنے نام کے ساتھ 'زعفرانی' کا اضافہ کیا تاکہ ہندو مسلم اتحاد کی علامت بن سکیں۔
سید عابد حسن 11 اپریل 1911ء کو تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد کے ایک محب وطن گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید امیر حسن عثمانیہ یونیورسٹی میں ڈین تھے، جبکہ والدہ فخر الحاجیہ بیگم ایک سرگرم مجاہدہ آزادی تھیں۔ ان کا اصل نام زین العابدین حسن تھا۔
Published: undefined
انہوں نے ابتدائی تعلیم سینٹ جارج گرائمر اسکول، عابڈس سے حاصل کی اور پھر نظام کالج میں داخلہ لیا، لیکن حب الوطنی کے جذبے نے انہیں تعلیم کے بجائے آزادی کی تحریک کی طرف مائل کر دیا۔ گاندھی جی کی تحریکِ سول نافرمانی میں شریک ہوکر 1931ء میں سابرمتی آشرم پہنچے۔ تاہم بعد ازاں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ صرف مسلح جدوجہد ہی آزادی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، لہٰذا انہوں نے انقلابی انجمن میں شمولیت اختیار کی اور ناسک ریفائنری کو تباہ کرنے کی کوشش میں حصہ لیا۔ اس عمل کے نتیجے میں ایک سال کی سزا سنائی گئی، مگر ’گاندھی-ارون معاہدے‘ کے تحت قبل از وقت رہائی مل گئی۔
Published: undefined
وہ تقریباً ایک دہائی تک کانگریس میں سرگرم عمل رہنے کے بعد 1935ء میں والدہ کی خواہش پر برلن چلے گئے تاکہ انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کریں۔ وہاں ان کی ملاقات سبھاش چندر بوس سے ہوئی۔ اگرچہ وہ تعلیم کے آخری مرحلے میں تھے، لیکن بوس کی شخصیت سے متاثر ہو کر سب کچھ چھوڑ کر آزاد ہند فوج میں شامل ہوگئے۔
1941ء میں جب آزاد ہند فوج کے لیے ایک متحدہ قومی سلام کی ضرورت پیش آئی، تو عابد حسن نے ’جے ہند‘ کا نعرہ تجویز کیا، جسے متفقہ طور پر قبول کیا گیا۔ نومبر 1941ء میں برلن میں فری انڈیا سینٹر کی پہلی میٹنگ میں اسے قومی نعرہ قرار دیا گیا، اور بعد ازاں یہ آزاد ہندوستان کا قومی سلام بن گیا۔
Published: undefined
عابد حسن دو برس تک نیتا جی سبھاش چندر بوس کے سیکریٹری رہے اور دنیا بھر میں تحریک کی کامیابی کے لیے متحرک رہے۔ 8 فروری 1943ء کو انہوں نے نیتا جی کے ساتھ جرمنی سے سماٹرا تک آبدوز کے ذریعے طویل اور خطرناک سفر کیا۔ انہیں انڈین نیشنل آرمی کی گاندھی بریگیڈ کا کمانڈر مقرر کیا گیا اور 1944ء میں امپھال کی تاریخی لڑائی میں حصہ لیا۔
جنگ کے بعد انگریزوں نے انہیں گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا، مگر آزادی کے بعد وہ ہندوستان کی سفارتی خدمات سے وابستہ ہو گئے اور مختلف ممالک میں قونصل جنرل کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دیں۔ 1969ء میں ریٹائر ہونے کے بعد زندگی کے آخری سال شیخ پیٹ، ٹولی چوکی کے ایک فارم ہاؤس میں گزارے اور 5 اپریل 1984ء کو وہیں وفات پا گئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined