ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ہمراہ افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی / آئیا اہن
اس وقت افغانستان کی طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی ہندوستان کے چھ روزہ دورے پر ہیں۔ ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے انھوں نے تبادلہ خیال اور نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا ہے۔ اس دورے کی متعدد سرگرمیوں کے تعلق سے تجزیاتی مضامین کی اشاعت ہو رہی ہے۔ سینئر تجزیہ کاروں اور بعض سابق سفارتکاروں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا طالبان حکومت کے تعلق سے ہندوستان کی خارجہ پالیسی بدل رہی ہے اور کیا جیو پولیٹکس کے تناظر میں ہندوستان نے اپنے رویے کو نرم کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں اس دورے میں ایسی کچھ باتیں ہوئی ہیں جن کی روشنی میں یہ سوال اٹھ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ عالمی برادری نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ لیکن طالبان حکومت کی کوشش ہے کہ اس پر عاید پابندیاں اٹھا لی جائیں اور عالمی برادری وہاں کی حکومت کو تسلیم کر لے۔ گزشتہ دنوں افغانستان کے معاملے پر روس میں ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں افغانستان کے علاوہ ہندوستان، پاکستان، چین، قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان نے شرکت کی تھی۔ ہندوستان نے بھی اسے ابھی تسلیم نہیں کیا۔ 2021 میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد ہندوستان نے کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا اور صرف ٹیکنیکل اسٹاف کو ہی باقی رکھا تھا۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہندوستان کا طالبان حکومت سے کوئی رابطہ نہیں رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے اعلیٰ سفارت کار متحدہ عرب امارات میں کئی بار مل چکے اور باہمی امور پر تبادلہ خیال کر چکے ہیں۔
Published: undefined
اس موقع پر وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اعلان کیا کہ ہندوستان جلد ہی کابل میں اپنے سفارتی مشن کو بحال کرے گا۔ حالانکہ ابھی سفارت خانہ پوری طرح فعال نہیں ہوگا بلکہ سفیر کی جگہ پر ایک انچارج یعنی چارج ڈی افیئرس کو تعینات کیا جائے اور اسے کچھ اسٹاف فراہم کیا جائے گا۔ دراصل مکمل سفارت خانہ کی بحالی کا مطلب ہوگا کہ ہندوستان نے طالبان حکومت کو تسلیم کر لیا ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس صورت میں نئی دہلی میں افغان سفارت خانہ بھی مکمل کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا پرچم بھی یہاں لہرائے گا۔ جس سے ایک دوسرا پیغام دنیا کو جائے گا۔ لیکن اس اعلان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان طالبان حکومت سے کٹ کر رہنا بھی نہیں چاہتا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ وہ افغانستان میں جاری اپنے پروجیکٹوں کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔ یاد رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ہمیشہ دوستانہ رشتے رہے ہیں اور ہندوستان انسانی بنیاد پر اس کی مدد کرتا رہا ہے۔
اس نے وہاں کی پارلیمنٹ کی تعمیر کی ہے۔ اسپتال اور تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کو فروغ دیا ہے۔ اسی طرح اور بھی بہت سے پروجیکٹ ہیں جو ہندوستان کی جانب سے افغانستان میں چلائے جا رہے تھے جو کسی نہ کسی سطح پر ٹھپ پڑے ہوئے ہیں یا ان پر جس طرح کام ہونا چاہیے اس طرح نہیں ہو رہا ہے۔ دوسری وجہ پاکستان ہے۔ حالانکہ پاکستان نے طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان سے امریکہ کو نکلنے میں معاونت کی تھی لیکن اب دونوں ملکوں کے رشتے اچھے نہیں ہیں۔ پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے نام پر افغانستان میں بمباری ہوتی رہتی ہے جس میں لوگوں کی ہلاکت ہوتی ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہلاک شدگان دہشت گرد ہوتے ہیں یا سویلین۔ لیکن اس معاملے پر ان دونوں ملکوں کے رشتے خراب ہو گئے ہیں۔ ادھر چین افغانستان میں اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ اگر ہندوستان کے ہمسایہ ملکوں میں چین کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگا تو یہ بات ہندوستان کے مفادات کے خلاف ہوگی۔
Published: undefined
امیر خان متقی نے کہا کہ افغانستان اپنے ملک کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ یہ واضح پیغام پاکستان کو ہے۔ موجودہ حالات میں اس بات کی ضرورت ہے کہ خطے کے ممالک سے ہندوستان کے دوستانہ رشتے رہیں۔ اس لیے ہندوستان افغانستان سے اپنے روابط کو استوار کرنا چاہتا ہے۔ لیکن کیا وہ اس سے مکمل طور پر سفارتی رشتے قائم کر لے گا اس بارے میں ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس معاملے میں ہندوستان بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہا ہے۔ وہ افغانستان کو اپنے سے دور بھی نہیں جانے دینا چاہتا اور نہ ہی ابھی اس کے ساتھ مکمل سفارتی رشتہ قائم کرنا چاہتا ہے۔
اس تعلق سے مغربی ملکوں کی پالیسیوں کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ قابل ذکر ہے کہ مغربی ملکوں کی جانب سے طالبان حکومت سے بار بار یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنے ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال کو بہتر کرے۔ وہ خواتین اور بچوں و بچیوں کے تعلق سے اپنی پالیسی تبدیل کرے۔ خیال رہے کہ خواتین پر بہت سی پابندیاں عاید کر دی گئی ہیں۔ ان کے عوامی مقامات پر جانے اور ملازمتیں کرنے پر کئی پابندی عاید ہے۔ صرف نچلی درجات تک بچیوں کو تعلیم دلانے کی اجازت ہے۔ اعلیٰ درجات میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عاید کر دی گئی ہے۔ گزشتہ دنوں جب وہاں زلزلہ آیا تھا جس میں ہندوستان نے کافی مدد کی تھی، تو میڈیا رپورٹوں کے مطابق ملبے میں دبی متعدد خواتین کو باہر نکالنے میں کافی وقت لگا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شریعت کے نفاذ کی وجہ سے مرد خواتین کے جسموں کو چھو نہیں سکتے تھے اور چونکہ عوامی میدان میں خواتین کی تعداد کم ہے لہٰذا ان کے آنے میں خاصا وقت لگا تھا۔
Published: undefined
اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ نومبر 2023 میں ہندوستان اور امریکہ کے مابین ٹو پلس ٹو مذاکرات میں جو قرارداد منظور کی گئی تھی اس میں طالبان حکومت سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ خواتین، بچوں اور اقلیتی فرقے کے لوگوں کے انسانی حقوق سمیت تمام شہریوں کے انسانی حقوق کا احترام کرے۔ مزید برآں سفر پر عاید پابندیں بھی اٹھا لے۔ لیکن وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے امیر خان متقی سے کیے جانے والے مذاکرات میں اس معاملے کو نہیں اٹھایا۔
اس دورے میں کچھ تنازعات بھی پیدا ہوئے۔ طالبان وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس میں خاتون صحافیوں کی شرکت پر پابندی پر ہندوستان میں شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ بعض تجزیہ کار سوال کر رہے ہیں کہ کیا ہندوستانی وزارت خاجہ نے بھی اس سے اتفاق کیا تھا۔ اگر اس نے کیا تھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے خواتین کی آزادی سے متعلق اپنے موقف کو تبدیل کیا ہے، خاص طور سے طالبان حکومت سے روابط قائم کرنے کے سلسلے میں۔ اگر ا س نے اس کو تسلیم نہیں کیا تو پھر اس فیصلے کی مخالفت کیوں نہیں کی یا اس پر ناراضگی کیوں نہیں ظاہر کی۔
Published: undefined
چونکہ ہندوستان نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لہٰذا باہمی مذاکرات یا پریس کانفرنس میں جھنڈا نہیں لگایا جا سکتا۔ مذاکرات میں تو وہاں کا جھنڈا نہیں لگا تھا لیکن پریس کانفرنس میں وہاں کے اسٹاف نے طالبان کا ایک چھوٹا سا جھنڈا متقی کے برابر میں لگا دیا تھا۔ اس کے علاوہ بیک گراونڈ میں طالبان حکومت کا جھنڈا لگایا تھا۔ لیکن میڈیا رپورٹوں کے مطابق افغان سفارت خانے میں موجود پچھلی حکومت کے اسٹاف نے اس کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے اس لیے وہ سابقہ حکومت کا جھنڈا ہٹا کر اس کی جگہ پر طالبان حکومت کا جھنڈا لگانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس معاملے پر وہاں کے سفارت خانے کے اسٹاف اور امیر خان متقی کے اسٹاف کے درمیان پریس کانفرنس منسوخ کرنے تک کی بات ہو گئی تھی۔ لیکن پھر بیک گراونڈ میں لگے پچھلی حکومت کے جھنڈے کو ہٹا دیا گیا اور طالبان حکومت کا جھنڈا بھی نہیں لگایا گیا۔ لیکن متقی کے برابر میں ایک چھوٹا جھنڈا میز پر لگا رہا۔
بہرحال ان تنازعات اور ہندوستان کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم نہ کیے جانے کے باوجود طالبان حکومت کے وزیر خارجہ کا ہندوستان کا دورہ، ان کی جانب سے اپنے ملک کی سرزمین کے دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے اعلان اور ہندوستان کی جانب سے کابل میں اپنے مشن کو فعال کرنے کے اعلان کو باہمی تعلقات کے سلسلے میں ایک اہم قدم تصور کیا جانا چاہیے۔ جیسا کہ شروع میں ذکر کیا گیا خطے کی جیو پالیٹکس کے تناظر میں ہندوستان کو اپنے موقف میں نرمی لانی چاہیے اور اس نے نرمی کا مظاہرہ کیا بھی جو کہ ایک مثبت قدم ہے۔
Published: undefined