فکر و خیالات

گاندھی کا سوراج اور سو سالہ فکری کشمکش...میناکشی نٹراجن

گاندھی جی کا ’سوراج‘ مساوات، عدم تشدد اور آزادی کا استعارہ ہے، جسے بعض تنظیمیں ناقابلِ قبول سمجھتی ہیں، مگر گاندھی جی کا راستہ آج بھی انسانیت کو روشنی دیتا ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر ’ایکس‘&nbsp;<a href="https://x.com/GemsOfINDOLOGY">@GemsOfINDOLOGY</a></p></div>

تصویر ’ایکس‘ @GemsOfINDOLOGY

 

ان دنوں ایک ایسے تنظیم کے سو سال پورے ہوئے ہیں جو خود کو تاریخ کے آئینے میں دیکھنے سے کتراتی ہے مگر یادداشت کو مٹانا آسان نہیں۔ یہ وہی تنظیم ہے جسے کبھی قومی پرچم قبول نہیں تھا، جسے آئین سے اختلاف تھا اور جس کے نزدیک کسی دلت مفکر یا باشعور شخصیت کی قیادت میں آئین سازی ناقابلِ قبول تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہی تنظیم ’وجے دشمی‘ کے دن قائم ہوئی اور بابا صاحب امبیڈکر نے بھی اسی دن بدھ مت کو اپنایا تھا۔

اس تنظیم کے پاس اپنی فکری ترتیب اور نظریاتی جواز ہے۔ ان کے بانیوں کا عقیدہ تھا کہ مختلف تہذیبی اور مذہبی فلسفے ایک قوم نہیں بن سکتے۔ یہ خیال جرمنی کے اس دور کے آمرانہ نظریے سے مشابہ تھا، جسے یہودیوں اور جرمنوں کا ساتھ رہنا گوارا نہیں تھا۔ اس تنظیم کی سوچ یہ تھی کہ صرف وہی زبانیں جو سنسکرت سے نکلی ہیں، ان کے بولنے والے ہی اس سرزمین پر رہنے کا حق رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک پدری روایت ہی سب کچھ ہے، نسائی یا مادری نقطۂ نظر کو وہ تسلیم ہی نہیں کرتے تھے۔

Published: undefined

یہی وجہ تھی کہ اس سوچ کے ماحول نے وہ زمین تیار کی جہاں ’سوراج‘ کے حقیقی علمبردار کی زندگی چھینی گئی۔ بعد میں انہی کی شبیہ اور چشمے کو محض مہمات میں استعمال کیا گیا مگر ان کی بصیرت کو فراموش کر دیا گیا۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ سوشل میڈیا پر انہیں ’راون‘ کی شکل میں دکھا کر تیر چلائے گئے اور معصوم اسکولی بچے ان پر گولی چلنے کے منظر پر تالیاں بجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ قاتل کی مورتیاں تک لگائی جانے لگیں۔

لیکن اس سب سے ان کے مقام پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ کیونکہ دنیا کے مختلف خطوں میں نسل پرستی اور جابرانہ نظاموں کے خلاف جدوجہد میں ان کی عدم تشدد کی راہ کو اجتماعی شعور کا ذریعہ بنایا گیا۔ غلامی اور تلخی سے نکلنے کے بعد ان کا مقام امر ہو گیا۔ ان کی راہ محض ہندوستان کی مہربانی پر منحصر نہیں تھی۔ جیسے بدھ مت کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پھیلا، ویسے ہی ان کی تعلیمات بھی دور تک گئیں، چاہے ہم انہیں بھلا بیٹھے ہوں۔

Published: undefined

اب سوال یہ ہے کہ آخر ان سے اتنی تکلیف کیوں ہے؟ آخرکار ایک عمر رسیدہ شخص اپنی زندگی مکمل کرتا ہی ہے لیکن اصل خوف ان کے خواب سے ہے، ’سوراج‘ کے خواب سے۔ وہ خواب اس طبقے کے لیے خطرناک ہے جو نہیں چاہتا کہ کسان، مزدور اور عورتیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہوں۔ گاندھی نے انہیں سوال اٹھانا سکھایا، جدوجہد اور تحریک کا ہنر دیا۔

انہوں نے واضح کر دیا کہ سوراج کا مطلب صرف آزادی نہیں بلکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم، ذات پات کے نظام سے آزادی اور صنفی مساوات بھی ہے۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ ان لوگوں کو کیسے قبول ہوتا جو سماجی برتری کے عادی تھے؟ جب وہ ملک بھر میں چھوا چھوت کے خلاف نکلے تو یہی طاقتیں ہل گئیں۔ ان کے ’رام راجیہ‘ کی مثال سب سے پہلے سابرمتی آشرم میں نظر آئی جہاں ایک دلت خاندان کو باورچی خانے کی ذمہ داری دی گئی۔ اس پر کئی لوگ چھوڑ گئے مگر انہوں نے عزم کے ساتھ کہا، ’’سب جا سکتے ہیں، مدد روک سکتے ہیں مگر میرا فیصلہ نہیں بدلے گا۔‘‘ یہی استقامت گاندھی کا جوہر تھی، یہ کمزور کی مجبوری نہیں تھی۔

Published: undefined

یہی سوراج کا راستہ ہے جس سے وہ نظریاتی تنظیم خوف کھاتی ہے۔ کیونکہ گاندھی کی نظر میں آزادی کا مطلب یہ تھا کہ حکومت کے غلط فیصلوں کے خلاف بھی عام شہری ستیہ گرہ کر سکے۔ سوراج میں شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی منتخب حکومت کے سامنے بھی سچائی کی بنیاد پر کھڑا ہو۔

آج کے حکمران صرف نام بدلنے اور علامتی اعلانات تک محدود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ’نئے انصاف‘ کی جگہ کہاں ہے، جب کسان احتجاج کریں تو انہیں غدار کہا جائے، یا سونم وانگچک جیسے افراد کو غیر ملکی ایجنٹ کہا جائے؟ حالانکہ یہ سب حق و صداقت کے لیے جدوجہد ہے۔ سوراج محض نمائندگی تک محدود نہیں بلکہ حقیقی شمولیت اور برابری کا نام ہے۔ اگر کسی دلت، آدیواسی یا اقلیتی فرد کو موقع ملے تو یہ صرف ابتدا ہے، اصل امتحان یہ ہے کہ کیا ذات پات کی درجہ بندی کو چیلنج کیا گیا یا نہیں۔ بصورتِ دیگر یہ محض پرانے نظام میں فرمانبرداروں کو بٹھانے کی کوشش ہوگی۔

Published: undefined

سوراج کی فضا میں خوف کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ وہاں فکر کے دروازے کھلے ہوتے ہیں، سوال اٹھائے جاتے ہیں، جڑوں کو سنبھالا بھی جاتا ہے اور جمود سے بچایا بھی جاتا ہے۔ اس کے برخلاف خوف پر مبنی نظام ’ہم‘ اور ’وہ‘ کی لکیر کھینچ دیتا ہے اور اسی خوف سے اقتدار کے بیانیے بنتے ہیں۔ مگر اس ماحول میں محبت، بھائی چارہ، انصاف اور حقوق باقی نہیں رہتے۔

اس بار دو اکتوبر اور دسہرہ ایک ہی دن ہیں۔ شاید یہ وقت کا اشارہ ہے۔ گاندھی نے ’رام راجیہ‘ کی بات کیوں کی تھی؟ رام کی پوری داستان دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ انہوں نے جبر و استبداد کے سنہرے محلات کو چیلنج کیا تھا۔ ان کی شریکِ حیات ایک ہل چلانے والے راجہ کو ملی تھیں، ان کے دوست بڑے سرمایہ دار نہیں بلکہ وانر اور عام لوگ تھے۔ ان کی پالیسی ذاتی صنعتکار دوستوں کے فائدے کے لیے نہیں بلکہ انصاف اور رفاقت کے لیے تھی۔

Published: undefined

رامائن میں کسی سنہری ایودھیا کی کہانی نہیں ملتی۔ بلکہ جب وہ سنہرے ہرن کے پیچھے بھاگتے ہیں تو جدوجہد اور آزمایش شروع ہو جاتی ہے۔ رام راجیہ کی اصل جھلک یہ ہے کہ وہاں تالے نہیں لگتے، دل بڑے ہوتے اور خوف نہیں ہوتا۔ مگر جیسے ہی تنگ نظری آتی ہے، عمل کی روح ختم ہو جاتی ہے۔

یہی سبق ہے کہ سوراج روز بیداری چاہتا ہے۔ یہ جامد نہیں، اس کی رفتار لطیف ہے اور یہ مسلسل جدوجہد ہے۔ ذرا سی غفلت غلامی کی طرف لے جاتی ہے۔

سو سال گزرنے پر بھی اس تنظیم نے محض الفاظ اور نعروں کی تراش خراش کی ہے مگر حکومت کی زبان اب بھی وہی ہے۔ ان کے یہاں سوراج نہیں بلکہ اس کے نام پر بالا دست طبقے کی حکمرانی قائم رکھنے کی کوشش ہے مگر ’گاندھی کا راستہ‘ اس سب سے بے نیاز ہے۔ وہ ہر دور میں انسانیت کو اجالا دیتا رہے گا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined