تصویر پربھات سنگھ
بریلی شہر کے ایک حصے میں ہونے والے حالیہ ہنگامے کو پندرہ دن گزر چکے ہیں، مگر اس کے اثرات اب بھی شہریوں کے دل و دماغ پر منڈلا رہے ہیں۔ زندگی بظاہر معمول پر آ گئی ہے، اسکول، دفاتر، دکانیں اور بازار سب اپنے معمول کے مطابق چل رہے ہیں، لیکن وہ چمک دمک اور گہما گہمی نظر نہیں آتی جو بریلی کی پہچان ہوا کرتی تھی۔ فضا میں ایک عجیب سی اداسی چھائی ہوئی ہے اور ذہنوں میں بے شمار سوال گردش کر رہے ہیں جن کے جوابات آسانی سے نہیں ملتے۔ کئی سڑکوں پر اب بھی پولیس کے بیرئیر لگے ہیں، کچھ علاقوں میں پولیس کے کیمپ قائم ہیں، سائرن بجاتی گاڑیوں کی گشت جاری ہے، اور راتوں کی خاموشی میں فوجی جوتوں کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ نتیجتاً لوگوں کی باہمی گفتگو بھی سرگوشیوں تک محدود ہو گئی ہے۔ کسی خاص شخص کی تلاش میں رات گئے ہونے والے پولیس چھاپوں نے خوف کی فضا کو اور گہرا کر دیا ہے۔
Published: undefined
اسلامیہ انٹر کالج کے دروازے پر تالا لٹک رہا ہے، اسی کے میدان پر دھرنے کی دعوت دی گئی تھی
اتحادِ ملت کونسل کے سربراہ مولانا توقیر رضا نے 26 ستمبر کو جس اسلامیہ انٹر کالج کے میدان میں عوام سے جمع ہونے کی اپیل کی تھی، اس کے دروازے پر اب بھی تالا لٹک رہا ہے۔ اس روز پولیس اور بھیڑ کے درمیان جھڑپ ہوئی، جس کے بعد سے اب تک 91 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے 85 کو جیل بھیج دیا گیا جبکہ 6 افراد تھانے سے ضمانت پر رہا ہوئے۔ دبی زبان میں کئی بے گناہوں کی گرفتاریوں کے قصے بھی گردش میں ہیں — کوئی امام نماز کے لیے جا رہا تھا، کوئی مزدور اپنی فیکٹری سے واپس لوٹ رہا تھا، تو کوئی نوجوان محض گزر رہا تھا کہ پکڑا گیا۔
اسلامیہ گیٹ کے سامنے بہاری پور چوکی کے قریب بیریر لگے ہیں، پولیس والے کرسیوں پر بیٹھے موبائل میں مگن نظر آتے ہیں۔ قریب ہی پان کی دکان چلانے والے رفیق بارہ دن بعد واپس آئے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’دل میں چار اسٹنٹ لگے ہیں، ہنگامے کے بعد خوف بہت بڑھ گیا ہے۔‘‘
Published: undefined
عام دنوں میں گہما گہمی سے بھری رہنے والی بہاری پور ڈھال کی سڑک پر اب گنتی کے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت کی درگاہ کو جانے والے راستے، پنڈت رادھے شیام کتھا واچک کے آبائی مکان کی گلی اور جین مندر کے باہر پولیس تعینات ہے۔ کمار ٹاکیز کے قریب ریڑھی والے اپنی جگہ پر ہیں، مگر پارکنگ خالی ہے۔ سنیما ہال کے باہر ایک پولیس والا صوفے پر لیٹا موبائل پر ویڈیوز دیکھ رہا تھا۔
ملوک پور کے رہائشی ستیش روزانہ بہاری پور کے راستے دفتر آتے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق سڑکوں پر لوگ تو ہیں، مگر ان کے چہروں کی قدرتی مسکراہٹ غائب ہے۔ گلیوں میں بزرگوں کے معمول کے بیٹھک ختم ہو گئے ہیں، لوگ بلا ضرورت گھروں سے نہیں نکلتے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس کی موجودگی نے خوف کی فضا پیدا کر دی ہے۔ چندو، جن کی کرانہ دکان ہے، نے اپنے بیٹے کو اسکول کے علاوہ کہیں آنے جانے سے روک دیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ چند روز قبل رات دو بجے پولیس کسی سیاسی کارکن کی تلاش میں ان کے محلے پہنچی، مگر سارا محلہ جاگ اٹھا۔
Published: undefined
بریلی میں دفتر، دکان، بازار سب معمول پر ہیں لیکن وہ رونق نظر نہیں آتی جو اس شہر کا کاردار ہے
شہر کے بیشتر لوگوں کا کہنا ہے کہ بریلی کے امن کو سیاست کی بھینٹ چڑھانے والوں کے سوا آخر کسی کو کیا فائدہ ہوا؟ دو دن تک انٹرنیٹ بند رہنے سے باہر والوں کو لگا کہ بریلی میں کوئی بڑی تباہی ہو گئی۔ کاروبار کا نقصان الگ، اور اس سماجی تانے بانے پر چوٹ الگ جو اس شہر کا فخر رہا ہے۔
قدیم شہر کا سیلانی علاقہ اس بار خاص طور پر خبروں میں رہا۔ افسران کے مطابق، ہنگامہ کرنے والے اور ان کے مددگار زیادہ تر اسی علاقے کے تھے۔ چار اکتوبر کو پولیس بھاری فورس اور بلڈوزر کے ساتھ وہاں تجاوزات ہٹانے پہنچی۔ میڈیا کی موجودگی نے ماحول کو اور گرما دیا۔ باہر رہنے والے بریلی کے شہری اپنے رشتہ داروں کی خیریت جاننے کے لیے دھڑا دھڑ فون کرنے لگے۔
Published: undefined
سیلانی چوراہے کے قریب کتابوں کی دکان چلانے والے ضمیر احمد نے کہا، ’’میں اسی برس کا ہوں، مگر اتنا جھوٹا میڈیا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ سنا ہوگا کہ یہاں سیکڑوں دکانیں توڑ دی گئیں، آپ خود دیکھ لیجیے۔ جس نے جرم کیا ہے اسے سزا ملنی چاہیے، مگر پوری قوم کو مجرم کیوں بنایا جا رہا ہے؟ فرقہ وارانہ تقسیم کا یہ منصوبہ شہر، قوم اور ملک — تینوں کے لیے نقصان دہ ہے۔‘‘
کئی لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ بلڈوزر کارروائی کا مقصد خوف پیدا کرنا تھا، اور حکام اپنے مقصد میں کامیاب بھی رہے۔ دسہرہ کے اگلے دن یعنی تین اکتوبر کو جمعہ کی نماز سے قبل انٹرنیٹ ایک بار پھر بند کر دیا گیا۔ نتیجتاً کئی والدین نے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے گریز کیا۔ عالمگیری گنج کے تاجر روی اگروال کہتے ہیں، “سب ٹھیک تھا مگر ڈر یہی تھا کہ بچوں کی چھٹی دوپہر کے بعد ہوتی ہے۔”
Published: undefined
یہ پہلا موقع نہیں جب مولانا توقیر رضا پر حالات بگاڑنے کے الزامات لگے ہوں۔ 2010 میں بھی بریلی میں کرفیو لگا تھا اور ان پر مقدمے درج ہوئے تھے۔ اس وقت بھی وہ دو دن بعد ضمانت پر رہا ہوئے۔ اتحادِ ملت کونسل کے پلیٹ فارم سے سیاست میں قدم رکھنے کی ان کی کوششیں سب کو معلوم ہیں۔ 21 ستمبر کو ان کی اپیل پر جمعہ کی نماز کے بعد مارچ کی تیاریوں کے دوران انتظامیہ نے ان سے ملاقاتیں کیں۔ اگرچہ بعد میں مارچ منسوخ کرنے کا اعلان ہوا، لیکن 26 ستمبر کو حالات پھر بگڑ گئے۔ اگلے دن مولانا کو گرفتار کر لیا گیا۔
کیمرج یونیورسٹی پریس سے شائع ہونے والی سٹیو آئی ولکنسن کی کتاب، ’ووٹس اینڈ وائلنس: الیکٹورل کمپٹیشن اینڈ کمیونل رائٹس ان انڈیا‘ میں بریلی کو ایک منفرد کردار والا شہر قرار دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق، اگر فسادات کی جڑ صرف سماجی و معاشی عوامل ہوتے، تو پھر بریلی، جونپور اور الہ آباد جیسے شہر دنگوں سے کیوں بچ جاتے، جب کہ ان کی معاشرتی صورت حال بھی مرادآباد، میرٹھ اور احمدآباد جیسی ہی ہے۔
Published: undefined
اس بات کی ایک زندہ مثال حالیہ ہنگامے کے دوران بھی دیکھی گئی۔ ونڈرمئیر میں جاری رام لیلا میں دانش خان نے وشنو اور رام کا کردار ادا کیا۔ فضل الرحمان عرف چنّا میاں کے بنوائے لکشمی نارائن مندر میں پوجا معمول کے مطابق جاری رہی۔ نیا ٹولہ میں پنڈت داتے رام کی بنوائی بدھ مسجد کی چابی آج بھی ان کے پوتے سنجے شرما کے پاس ہے، جو وقتاً فوقتاً جا کر مسجد صاف کرتے ہیں۔
یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ فرقہ پرستی پھیلانے کی کوششوں نے کچھ اثر ضرور ڈالا ہے۔ رام لیلا میں برسوں سے شتروگھن کا کردار نبھانے والے شفی نے اچانک یہ کہہ کر کنارہ کشی اختیار کر لی کہ ان کا ضمیر اجازت نہیں دیتا — اور شاید یہی بریلی کے موجودہ ماحول کی سب سے نمایاں علامت ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined