جوتا پھینکا دہلی میں، گونج سنائی دی بہار میں

چیف جسٹس بی آر گوئی پر عدالت میں جوتا پھینکنے کے واقعہ نے بہار کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ ذات پات کی بنیاد پر ابھرے غصے نے بی جے پی اور این ڈی اے کے لیے انتخابی چیلنج پیدا کر دیا ہے

<div class="paragraphs"><p>بہار اسمبلی انتخاب 2025 سے قبل ووٹروں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے دیوار پر کی گئی پینٹنگ / Getty Images</p></div><div class="paragraphs"></div>
i
user

وشو دیپک

بھارتیہ جنتا پارٹی اس وقت بہار اسمبلی انتخابات کے لیے نشستوں کی تقسیم پر الجھی ہوئی ہے۔ ایسے میں وہ ذات پر مبنی ناراضگی برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں، لیکن اس میں یہ سکت بھی نہیں کہ چھ اکتوبر کو پیش آئے جوتا پھینکنے کے واقعہ کو سیاسی موضوع بننے سے روک سکے۔ آخر یہ کوئی معمولی توہین نہیں تھی — ملک کے چیف جسٹس پر اس وقت جوتا پھینکا گیا، جب وہ عدالت میں بیٹھے ہوئے تھے۔

چیف جسٹس بی آر گوئی دلت طبقے سے ہیں جبکہ یہ حرکت کرنے والا شخص ایک اونچی ذات سے تعلق رکھنے والا ’سناتن دھرم‘ کا خود ساختہ محافظ۔ سوشل میڈیا پر ہندوتوا سے وابستہ حلقوں نے اس حملے کی کھلے عام تائید کی، جس سے واقعہ کا ذات پر مبنی پہلو بالکل واضح ہو گیا۔

یہ واقعہ 2015 کی یاد بھی دلاتا ہے، جب آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ ’’اب وقت آ گیا ہے کہ ملک اپنی ریزرویشن پالیسی پر نظرثانی کرے۔‘‘ اس بیان نے بہار کے انتخابی ماحول کو بدل دیا تھا۔ راشٹریہ جنتا دل اور جنتا دل (یونائیٹڈ) نے اسے بی جے پی کے خلاف دلت اور پسماندہ طبقات کو متحد کرنے کے لیے بھرپور استعمال کیا، جس کے نتیجے میں بی جے پی کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا۔

اب ایک دہائی بعد، تاریخ خود کو دہراتی دکھائی دے رہی ہے۔ جوتا پھینکنے کے واقعہ سے پہلے کئی ہفتوں تک بی جے پی سے وابستہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس چیف جسٹس گوئی کے خلاف مہم چلا رہے تھے، ان پر ’ہندو مخالف‘ ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے ’مواخذے‘ تک کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ انہوں نے کھجوراہو میں دیوتا وشنو کی ٹوٹی ہوئی مورتی کی مرمت کے لیے دائر ایک عرضی کو مسترد کر دیا تھا، اور کہا تھا کہ ’عقیدت اور وراثت کے معاملات عدالتی دائرے سے باہر ہیں۔ اگر آپ واقعی وشنو کے بھکت ہیں تو عبادت کے ذریعے خود ان سے مداخلت کی دعا کریں۔‘‘


اس جملہ کی بنا پر ان کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ’بلڈوزر راج‘ پر ان کے طنزیہ بیان، کہ ہندوستانی عدلیہ قانون کے راج سے چلتی ہے، بلڈوزر کے راج سے نہیں‘ کو بھی ہندوتوا گروہوں نے ’ہندو مخالف‘ قرار دیا۔ دلچسپ بات یہ کہ بی جے پی کے کسی سینئر رہنما نے ان حملوں کی مذمت نہیں کی، بلکہ خاموشی سے سب کچھ ہوتا دیکھتے رہے۔

اسی دوران ایک 71 سالہ وکیل راکیش کشور نے چیف جسٹس پر جوتا پھینک دیا۔ گرفتاری کے بعد عدالت کی ہدایت پر پولیس نے اس کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا۔ لیکن اس کے بعد بہار میں سیاسی ہلچل مچ گئی۔

بہار میں جہاں تقریباً پانچواں حصہ دلت ووٹروں کا ہے، اس واقعے نے دلت برادری کے غصے کو شدید کر دیا۔ اپوزیشن نے فوراً اسے ’اعلیٰ ذات کے غرور‘ سے جوڑ کر بی جے پی کو گھیرنے کی کوشش شروع کر دی، جبکہ این ڈی اے کی قیادت اسے نرم لہجے میں ’افسوسناک‘ کہہ کر دبانے کی کوشش کرتی رہی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خود کو دلتوں کے رہنما کہنے والے دو مرکزی وزراء چراغ پاسوان اور جیتن رام مانجھی، نے کوئی سخت ردعمل نہیں دیا۔ بہار کانگریس نے شریک انچارج شاہنواز عالم نے اس پر کہا، ’’این ڈی اے کے یہ لیڈر آر ایس ایس اور سناتن نظریے کی بالادستی قبول کر چکے ہیں، اسی لیے خاموش ہیں۔‘‘


وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے مختصر سا بیان جاری کر کے واقعے کو ’ناقابلِ قبول‘ قرار دیا، جبکہ مایاوتی نے بھی ہلکے انداز میں وکیل کے عمل کو ’غیر مہذب‘ قرار دیا۔ دوسری طرف، بہار کانگریس کے صدر راجیش رام ایک پریس کانفرنس میں جذباتی ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اگر ملک کا چیف جسٹس بھی محفوظ نہیں تو ایک عام دلت کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟‘‘

کانگریس نے دہلی میں اپنے وکلا ونگ کو متحرک کیا ہے تاکہ اس معاملے کے قانونی پہلو پر قدم اٹھایا جا سکے۔ ملکارجن کھڑگے اور راہل گاندھی نے ایک مشترکہ بیان میں اسے ’سماجی انصاف کے اصولوں کی توہین‘ اور ’آئین کے خلاف جرم‘ قرار دیا۔ انہوں نے اتر پردیش میں ایک دلت نوجوان کی پٹائی سے موت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعات صرف افراد کے خلاف نہیں بلکہ سماجی ضمیر کے خلاف حملے ہیں۔

انتخابی ماحول میں جب ذات پات کے جذبات پہلے ہی بھڑکے ہوئے ہوں، ایسے میں چیف جسٹس پر جوتا پھینکنے کا واقعہ بی جے پی کے لیے 2015 جیسے بحران کو دہرا سکتا ہے۔ بہار میں اس جوتے کی گونج ابھی ختم نہیں ہوئی، بلکہ یہ نیا انتخابی نعرہ بنتی جا رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔