ٹرمپ کا غزہ فارمولہ: وقتی راحت کی امید، مگر پائیدار امن سے کوسوں دور...عبید اللہ ناصر

ٹرمپ اور نیتن یاہو کا یکطرفہ غزہ فارمولہ فلسطینیوں کی دہائیوں پر محیط جدوجہد کو نظرانداز کرتا ہے۔ وقتی راحت تو ممکن ہے مگر یہ منصوبہ پائیدار امن، انصاف اور خودمختاری سے محروم دکھائی دیتا ہے

<div class="paragraphs"><p>امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، تصویر یو این آئی</p></div>
i
user

عبیداللہ ناصر

دوسرے فریق کی منظوری تو درکنار، اس سے صلاح و مشورہ کیے بغیر ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو نے ایک منصوبہ تیار کیا اور غلاموں نے ’آمنا و صدقنا‘ کہہ کر اسے قبول کر لیا۔ یہ ایک طرح سے فلسطینیوں کی ستر سالہ مزاحمت، جذبۂ حریت، بے مثال قربانیوں اور ان قربانیوں کے طفیل میں عالمی رائے عامہ کے ان کے حق میں جھکاؤ اور ایک سو پچاس ملکوں کے ذریعہ آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کو بیک جنبش قلم نیست و نابود کر دینے کی گہری سازش ہے۔ جس سے اگرچہ وقتی طور پر فلسطینیوں کی مزاحمت اور اسرائیل کی بربریت رک جائے، لیکن کسی نہ کسی مرحلے پر یہ پھر ابھرے گی۔

مسلسل مغرب اور امریکہ کے ہاتھوں ٹھگے جانے کے باوجود اپنی غیرت، حمیت اور اپنے مفاد کو قربان کر دینے کے بعد بھی عربوں کو احساس نہیں ہوا کہ امریکہ، خاص طور پر صدر ٹرمپ، ان کے سگے نہیں ہو سکتے۔ جس طرح کیمپ ڈیوڈ معاہدے کرا کے کارٹر نے عرب اتحاد کے حصے بخرے کر کے اسرائیل کو نئی طاقت دی تھی، یہ معاہدہ بھی امریکی دھوکے بازی کی ایک کڑی ہے۔

اس کے تمام نکات کے علاوہ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ جس آزاد خودمختار فلسطینی ریاست کو 150 سے زائد ملک تسلیم کر چکے ہیں اور جو امریکہ کی کوششوں سے ہونے والے اوسلو معاہدے کی بنیاد ہے، اس فلسطینی ریاست کے قیام کو پھر مستقبل کے حوالے کر دیا گیا ہے, ایک ایسا مستقبل جو 1917 سے لے کر آج تک آیا ہی نہیں۔

ٹرمپ کے اس فارمولے میں کچھ مثبت باتیں بھی ہیں، جیسے قیامِ امن کی نگرانی کے لیے قطر، سعودی عرب، ترکیہ، اردن، متحدہ عرب امارات اور پاکستان سمیت آٹھ مسلم ملکوں پر مشتمل ایک امن فورس تشکیل دی جائے گی، جسے اسرائیلی فوج کے انخلا کے بعد غزہ سونپ دیا جائے گا۔ یہ فورس حماس اور اسرائیل دونوں کو معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرنے دے گی اور جو فریق یہ جرات کرے گا اس سے اس فورس کا ٹکراؤ بھی ہو سکتا ہے۔


مستقبل کے کسی انتظام میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ حماس کے جو جنگجو خود سپردگی کریں گے انہیں عام معافی مل جائے گی اور جو غزہ چھوڑنا چاہیں گے انہیں رفح کے راستے مصر جانے کی اجازت اور محفوظ رہگزر دی جائے گی۔ حماس کے تمام انفراسٹرکچر، تنصیبات اور سرنگیں یہی کثیرالملکی فورس تباہ کرے گی۔ اگر حماس غزہ کو خالی کرنے سے انکار کرے گی تو یہی فورس اسے خالی کرائے گی۔ یعنی ٹرمپ نے بڑی عیاری سے حماس اور مسلم ملکوں پر مشتمل اس فورس میں ٹکراؤ کا راستہ کھول دیا ہے۔

حماس کو تمام اسرائیلی یرغمال رہا کرنے ہوں گے اور جن کی موت ہو چکی ہے ان کے باقیات واپس کرنا ہوں گے، مگر اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی کے سلسلے میں کوئی ٹھوس بات نہیں کہی گئی ہے۔ بس اتنا کہا گیا ہے کہ اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کے بعد فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع ہوگا — کتنے رہا ہوں گے، اس کا ذکر نہیں اور نہ ہی ان فلسطینیوں کی واپسی کا ذکر ہے جنہیں اسرائیل نے جلا وطن کیا یا جو خود فلسطین چھوڑ گئے۔

اب سوال یہ ہے کہ آیا اسرائیل واقعی غزہ خالی کرے گا یا اس سے خالی کرایا جائے گا؟ کیا نیتن یاہو اتنی آسانی سے غزہ چھوڑ دیں گے؟ اب تک کا ریکارڈ تو یہی رہا ہے کہ اسرائیل کے کسی وعدے اور امریکہ کی کسی یقین دہانی پر یقین کرنا خود کو دھوکہ دینا ہوگا۔ اگر اسرائیل غزہ خالی بھی کر دے تو بھی اس کا انتظام فلسطینیوں کے ہاتھ میں نہیں آئے گا، حالانکہ فطری طور پر یہ ذمہ داری محمود عباس کو ملنی چاہئے تھی جو فلسطینی اتھارٹی کے صدر اور وہاں کے منتخب سربراہ ہیں۔

اس کے برخلاف، غزہ کا نظام ایک بین الاقوامی اتھارٹی کو سونپا جائے گا، جس کے سربراہ ٹرمپ خود اور برطانیہ کے سابق وزیرِاعظم ٹونی بلیئر ہوں گے۔ انہیں یہ ذمہ داری سونپے جانے پر خود برطانیہ کے رکن پارلیمنٹ جیرمی کوربن نے اعتراض کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عراق پر حملے میں امریکہ کا ساتھ دے کر بلیئر نے تاریخی غلطی کی تھی، جس کے نتیجے میں لاکھوں بے گناہ عراقی بوڑھے، بچے، جوان اور خواتین موت کے منہ میں چلے گئے۔ خود بعد میں ٹونی بلیئر نے اپنی اس تباہ کن غلطی کا اعتراف کیا تھا کہ عراق کے پاس عام تباہی کا کوئی ہتھیار نہیں تھا اور امریکہ کے ساتھ اس جنگ میں شامل ہونا ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔


یہ ایک طرح سے اس پرانے نظام کو واپس لانے کی کوشش ہے جب پہلی جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ نے خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ کر کے فلسطین کو اپنی نگرانی میں لے لیا اور بعد میں امانت میں خیانت کرتے ہوئے اسے تقسیم کر کے اسرائیل کو جنم دیا۔ یہی بین الاقوامی اتھارٹی غزہ کی تعمیرِ نو کا کام بھی دیکھے گی، جس میں امریکی، برطانوی اور دیگر یورپی ملکوں کے ٹھیکیداروں اور سرمایہ کاروں کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔

اس امن فارمولے میں بہت سے سقم ہیں اور مستقبل کے کئی خطرے پوشیدہ ہیں لیکن چونکہ غزہ کو جس طرح قبرستان بنا دیا گیا ہے، وہاں کے لوگوں کو بھوکا پیاسا مارا جا رہا ہے، ان حالات میں فوری جنگ بندی اور راحت رسانی پہلی ترجیح ہے، جس کا راستہ اس سمجھوتے سے کھلتا دکھائی دیتا ہے، اس لیے اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے۔

امید ہے کہ حماس اور اس کے حامی بھی تلخ زمینی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اس سمجھوتے کے نفاذ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے، تاکہ وہاں فوری طور پر راحت پہنچ سکے، انفراسٹرکچر درست ہوں اور معمولاتِ زندگی کسی حد تک بحال ہو سکیں۔ پھر بھی یہ حتمی حل نہیں ہے، نہ یہ منصفانہ ہے اور نہ ہی پائیدار۔ فلسطین کے مسئلے کا پائیدار حل صرف دو مملکتی فارمولے میں مضمر ہے، یہی خطے میں امن و استحکام کا ضامن ہے اور اسرائیل کے تحفظ کی گارنٹی بھی یہی فارمولہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔