بالی ووڈ

ٹوائلیٹ ایک پریم کتھا — ایک ردّی فلم

ٹوائلیٹ ایک پریم کتھا — ایک ردّی فلم

Getty Images
Getty Images 

جب سے ٹوائلیٹ ایک پریم کتھا فلم ریلیز ہوئی ہے ایک جملہ سوشل میڈیا پر کافی مشہور ہو چلا ہےـ ’’اس سے اچھے دن اور کیا آئیں گے- لوگ سج دھج کر ’ٹوائلیٹ‘ جا رہے ہیں!‘‘

اس مزاحیہ جملے میں ایک گہرا پیغام بھی ہے۔ حفظان صحت پر مبنی ایک فلم ، جسے تقریباً ہر ایک نقاد نے ردی فلم کہہ کر ر دکر دیا تھا، باکس آفس پر اچھی کمائی کر گئی تو اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں جو مقبول ہو وہ اچھا اور مثبت بھی ہو ۔ یہ بات ہمارے آج کے سماجی و سیاسی ماحول میں بھی کھری اترتی ہے۔

ٹوائلیٹ ایک پریم کتھا سے بہت امیدیں تھیں۔ خاص طور پر اس لئے کیوں کہ فلم کی طویل اور منظم تشہیر کے دوران یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ فلم ایک سچے واقعہ پر مبنی ہے اور ایک مثبت پیغام کو عام کرنے کے لئےبنائی گئی ہے۔ پیغام چونکہ وزیر اعظم کے پسندیدہ منصوبے صفائی کی مہم سے وابستہ ہے تو فلم کو اتر پردیش میں ٹیکس فری بھی کر دیا گیا اور یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ ملک بھر میں اسے ٹیکس فری کر دیا جائے۔

بہرحال ، فلم نے اتنی کمائی تو کر لی ہے کہ اسے ٹیکس فری نہ بھی کیا جائے تو بھی پروڈیوسرز کو کوئی ملال نہیں ہوگا۔ اور پروڈیوسرز میں سے ایک تو اکشے خود ہی ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہر بڑھ چڑھ کر کئے گئے دعووں کے ساتھ ہوتا ہے، ٹوائلیٹ ایک پریم کتھا بھی ایک ایسے قبض سے نجات دینے والے چورن کی طرح رہی جو مہنگا تو بہت ہے لیکن کارگر نہیں ہے۔

جیسا کہ ہر بالی ووڈ کی فلم میں ہوتا ہے، کہانی شروع ہوتی ہے ہیرو ہیروئن کی محبت سے، کچھ اچھی ہلکی اور مزاحیہ سچویشن کے علاوہ یہ محبت بھری کہانی عام فلموں جیسی ہی ہے۔حالانکہ ہیرو کی طرف سے ہیروئن کا بار بار تقریباً تعقب کیا جاتا ہے ۔ وہ تو ہیروئن ہیرو کے غصہ سے بھرے ڈائیلاگز پر مائل ہو جاتی ہے ، ورنہ یہ فلم تعقب کے بارے میں بھی ہو سکتی تھی۔ (پتہ نہیں بالی ووڈ فلم انڈسٹری کو یہ سمجھنے میں کتنے اور برس لگیں گے کہ اگر کوئی لڑکی اپنی ناپسند ظاہر کر دیتی ہے تو لڑکے کو مان لینا چاہئے اور اس کے پیچھے نہیں دوڑنا چاہئے۔ یہ سمجھ آنے کے بعد ہو سکتا ہے کہ ہمارے فلم ساز کچھ بہتر رومانی فلمیں بنا سکیں)

آخرکار ہیروئن جب ہیرو سے شادی کر لیتی ہے تو اسے معلوم پڑتا ہے کہ اس کی سسرال میں تو ٹوائلیٹ ہے ہی نہیں (یہ تو فلم کے نام سے ہی ظاہر تھا، سو، اس میں بھی کوئی ایسی حیرت انگیز بات نہیں لگی)۔ہیروئن گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور پھر شروعات ہوتی ہے ہیرو کے ٹوائلیٹ بنانے کی جد و جہد کی، جس میں بد عنوانی، گھر کے اندر ٹوائلیٹ تعمیر کرانے کے حوالے سے دیہی ہندوستان میں لوگوں کا نظریہ، اندھا اعتماد، رواج یہاں تک کہ میڈیا وغیرہ سبھی سے جد و جہد شامل ہے۔ یہ سبھی مسائل سنجیدہ ہیں۔ اگر یہ کہانی محض ایک شخص کی اپنی بیوی کو گھر واپس لانے کے لئے ان سبھی غلط رواجوں ، سرکاری رویوں اور بدعنوانی سے لڑنے کی نجی مہم پر مرکوز ہوتی تو یہ ایک اچھی اور موثر فلم ہو سکتی تھی۔

لیکن جب انہیں مسائل کو ایک وسیع سطح پر لاکر محض لفاظی کی جائے تو یہ ایک حد کے بعد بورنگ ہو جاتی ہے۔ جہاں سرکار کے رویہ سے احتجاج کرنے کی بات آتی ہے، ہیرو فوراً بچاؤ کی حالت میں آ جاتا ہے ، مانو، سرکار کا برینڈ امبیسڈر ہو۔

ہر گھر میں بیت الخلاء نہ بنا پانے کے لئے گزشتہ سرکاروں کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ سرکاری دفاتر تو بد عنوانی سے لبالب ہیں لیکن وزیر اعظم ایک دم پاک صاف۔ یہاں تک کہ پریس کے تئیں بھی ہیرو کا رویہ سرکاری ہے۔ جب میڈیا پوچھتی ہے کہ لوگ اگرباہر رفع حاجت پر مجبور ہیں تو کیا سرکار کی کوئی ذمہ داری نہیں تو ہیرو فوراً کہتا ہے، ’’لوگوں کا تو کام ہی ہےکہ ہر بات کا الزام سرکار پر لگا دو ! ‘‘(یاد رہے۔ اسی سرکار کے ایک رہنما نے اخبار نویسوں کو ’پریسٹیٹیوٹ‘ کے لقب سے نوازا تھا؟ اور یہ وہی ’پریس ‘ہے جس کی رکن بن کر اکشے کمار کی اہلیہ’مسز فنی بونس‘ کے نام سے کالم لکھ کر شہرت حاصل کر چکی ہیں۔)

فلم کا پیغام یہ بھی ہے کہ ٹوائلیٹ بنانا تو ہم شہریوں کا کام ہے اس سے سرکار کا کیا لینا دینا۔ صاف ہے کہ فلم کے ڈائریکٹر اس بات سے انجان ہیں کہ دیہی ہندوستان میں جہا ں کسان کی لڑائی بھوک ، غریبی اور نہ ختم ہونے والے قرض سے ہے، وہاں ٹوائلیٹ بنوا پانے کا خیال اور ذرائع بہت دور کی بات ہیں۔ کاش، یہ فلم صرف ہیرو کی جد و جہد تک ہی محدود ہوتی تو کم از کم ایک طبقے کو ذہنی سطح پر صاف صفائی رکھنے کی کوئی پہل کرنے کے لیے حوصلہ افضائی تو کر سکتی تھی۔ لیکن پوری فلم وزیر اعظم مودی سے اتنی متاثر نظر آتی ہے کہ ان کی تقریر کی طرح ہی بے کار کی جملہ بازی ہو کر رہ گئی ۔

اور چونکہ جملہ بازی بھی کبھی کبھی بااثر ہوتی ہے (وزیر اعظم کی شہرت اس کی ایک مثال ہے)، اس لئے فلم نے شروعاتی دنوں میں اچھی کمائی کی۔ لیکن اس سے یہ مان لینا بہت بڑی غلطی ہوگی کہ فلم اچھی ہے۔ میرا تو یہ ماننا ہے کہ جتنا پیسہ فلم کے پروڈیوسر نے اس کمزور فلم کو بنانے اور سرکار نے صفائی مہم کے مہنگے اشتہاروں میں لگایا ہے، اتنا وہ اگر گاؤں میں پانی کے درست نظام اور ٹوائلیٹ بنانے میں لگادیتے تو یہ مہم کہیں زیادہ کارگر ہوتی اور ہم ایک سنجیدہ مسئلہ پر گھٹیا فلم دیکھنے اور پھر اس کی کمائی پر واہ واہی کرنے پر مجبور نہ ہوتے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined