بعض پاسپورٹ پر سفر کرنا زیادہ آسان کیوں ہوتا ہے؟

کچھ پاسپورٹ پر دنیا میں کہیں بھی آسانی سے سفر کیا جا سکتا ہے لیکن بعض پاسپورٹ پریشانیوں کا سبب بن جاتے ہیں۔آخر ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ ہم آپ کو اس مضمون میں بتا رہے ہیں۔

بعض پاسپورٹ پر سفر کرنا زیادہ آسان کیوں ہوتا ہے؟
بعض پاسپورٹ پر سفر کرنا زیادہ آسان کیوں ہوتا ہے؟
user

Dw

بین الاقوامی سفر آپ کے لیے خوشگوار تجربہ ہوتا ہے یا پریشانیوں کا سبب یہ بہت کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کے پاس کون سا پاسپورٹ ہے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اندازہ ان لوگوں کو شاید نہیں ہوگا جنہوں نے کافی عرصے سے ویزا کی درخواست نہیں دی ہے۔

مثال کے طورپر جرمن پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے کمبوڈیا جانا بہت آسان ہے۔ وہ کمبوڈیا کے برلن سفارت خانے میں صرف 44 ڈالر کی ویزا فیس جمع کرکے 30 دنوں کا سیاحتی ویزا حاصل کرسکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ان کے پاس کمبوڈیا میں داخلے کے وقت کم از کم چھ ماہ کی مدت کا قانونی پاسپورٹ ہو۔ وہ اس کے متبادل کے طورپر 33 ڈالر ادا کرکے 30 دنوں کے لیے آن لائن سیاحتی ویزا بھی حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس کی پروسیسنگ میں تین دن کا وقت لگتا ہے۔ ایک اور آسان طریقہ یہ ہے کہ کوئی جرمن براہ راست پرواز کرکے کمبوڈیا پہنچ جائے اور وہاں ہوائی اڈے پر "آمد پر ویزا"حاصل کرسکتا ہے۔


لیکن دوسری طرف جب کمبوڈیا کا پاسپورٹ رکھنے والا جرمنی جانا چاہتا ہے تو ایک بالکل مختلف تصویر سامنے آتی ہے۔ اسے ایک دعوت نامہ، بینک کھاتے کی چھ ماہ کی تفصیلات، آمدنی اور اثاثوں کے ثبوت، دیگر متعدد ذاتی دستاویزات بھی پیش کرنے پڑتے ہیں۔ ویزا کی فیس 87 ڈالر ہے جو ناقابل واپسی ہے اور اسے نقدی کی شکل میں ادا کرنا پڑتا ہے۔

ارون نامی ایک ادھیڑ عمر کے کمبوڈیائی نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا،"وہ آپ سے کئی سوالات پوچھتے ہیں، اور اگر انہیں لگتا ہے کہ آپ قابل بھروسہ اور قابل اعتماد نہیں ہیں تو وہ آپ کو ویزا نہیں دیں گے۔" ارون خود اس مرحلے سے گزر چکے ہیں اور انہیں ویزا کے اس پورے عمل کا تجربہ ہے۔ تو آخر پاسپورٹ کی طاقت میں اس واضح فرق کی کیا توضیح کی جاسکتی ہے؟ اس کا صرف ایک سادہ سا جواب ہے: معاشیات۔


یہ سب معیشت کا کھیل ہے

رہائش اور شہریت کے متعلق مشاورتی فرم ہینلی اینڈ پارٹنرز اور انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (اے آئی ٹی اے) باقاعدگی سے دنیا کے مضبوط اور کمزور ترین پاسپورٹ کی درجہ بندی کرتی ہے۔ وہ یہ درجہ بندی اس بنیاد پر کرتی ہے کہ پاسپورٹ رکھنے والے ویزا کے بغیر یا 'آمد پر ویزا' کی بنیاد پر کتنے ملکوں میں داخل ہو سکتے ہیں۔

اس کی تازہ ترین رپورٹ میں جی۔7 کے رکن ممالک جاپان، جرمنی، اسپین، اٹلی، فرانس، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا کو دنیا کے چند طاقت ور ترین پاسپورٹ رکھنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ اس فہرست میں پہلے نمبر پر جاپان کا پاسپورٹ رکھنے والا شخص کم از کم 193مقامات تک آسان سفری رسائی پاسکتا ہے۔ جی 7 ملکوں کا عالمی گھریلو مجموعی پیداوار میں 40فیصد سے زیادہ حصہ ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے اعداد و شمار کے مطابق ان کے پاس دنیا میں فی کس سب سے زیادہ جی ڈی پی بھی ہے۔


ہینلی اینڈ پارٹنرز کا کہنا ہے کہ "ممالک اپنی سرحدوں کو امیر ممالک کے شہریوں کے لیے کھولنے کے لیے زیادہ تیار ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے تجارت، سیاحت اور سرمایہ کاری کی صورت میں انہیں زیادہ اقتصادی منافع کا امکان ہے۔" ہینلی اینڈ پارٹنرز کے مطابق اس کے برعکس"زیادہ غربت اور معاشی عدم استحکام والے ممالک کے پاسپورٹ رکھنے والوں کو ان کے ویزے کی مدت سے زیادہ قیام کو ایک بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔" یہی وجہ ہے کہ انہیں بیرونی ملکوں میں داخل ہونے میں بڑی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کمبوڈیا کا پاسپورٹ رکھنے والا ارون اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،"کمبوڈیا ایک غریب ملک ہے، اس لیے اس کا سفری دستاویز بھی کم طاقت ور ہے۔" ہینلی اینڈ پارٹنرز کے مطابق درحقیقت کمبوڈیا کا پاسپورٹ دنیا کے کمزور ترین سفری دستاویزا ت میں شمار کیا جاتا ہے۔ برلن میں مقیم ایک صحافی، محمد، نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں کمزور پاسپورٹ اور مضبوط پاسپورٹ کے نقصانات اور فائدوں کا ذاتی تجربہ ہے۔


انہوں نے بتایا کہ وہ پہلے پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کرتے تھے، جو ہینلی اینڈ پارٹنرز کے مطابق دنیا کا چوتھا کمزور ترین سفری دستاویز ہے۔ اس کے ذریعہ صرف 32 ملکوں تک ویزا فری رسائی ہو سکتی ہے۔ محمد نے تاہم نیوٹرلائزیشن کے ذریعہ حال ہی میں جرمن شہریت حاصل کی ہے۔

محمد بتاتے ہیں کہ،"پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ مجھے ہمیشہ ایک پیچیدہ اورطویل ویزے کے عمل سے گزرنا پڑتا تھا اور عام طورپر ویزے کی درخواست مسترد کردی جاتی تھی۔" انہوں نے مزید کہا،"دوسری بات یہ کہ جب آپ کچھ ممالک خاص طورپر مشرق وسطیٰ کا سفر کرتے ہیں تو آپ کو ایک الگ قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے اور اضافی سوالات سے گزرنا پڑتا ہے۔"


محمد نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جرمن پاسپورٹ ان کے لیے ہوا کا خوشگوار جھونکا ثابت ہوا۔"میں جرمن پاسپورٹ کی طاقت کو واضح طورپر محسوس کرتا ہوں۔ مجھے صرف چند ملکوں کے لیے ویزا کے لیے درخواست دینے کی ضرورت ہے اور میں آمد پر ویزا کے اندراج کے ذریعہ بہت سی منزلوں کا سفر آسانی سے کرسکتا ہوں۔"

پاسپورٹ برائے فروخت

یہ پاسپورٹ کو خاص طورپر قابل قدر بنا نے کا طریقہ ہے۔ سابق میں یورپی یونین کے کئی ممالک فریق ثالث کے شہریوں کو ضروری یورپی یونین پاسپورٹ خریدنے اور سفری آزادیوں سے لطف اندو ز ہونے کی اجازت دیتے تھے بشرطیکہ وہ ان کے ملک میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کریں۔ اگرچہ ان میں سے بہت سی یورپی اسکیموں کو سیاسی دباو کی وجہ سے مرحلہ وار ختم کیا جارہا ہے لیکن مشرق وسطیٰ کے ممالک کی بڑھتی ہوئی تعداد نے اس طرح کے سودے شروع کردیے ہیں۔اور وہ ایسا کرنے والے دنیا کے واحد ملک نہیں ہیں۔


بدعنوانی کے خلاف مہم چلانے والی ایک غیر سرکاری تنظیم رونالڈ پیپ ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ آج مالٹا یورپی یونین میں واحد ملک ہے جو سرمایہ کاری کے لیے پاسپورٹ دے رہا ہے۔ تاہم دولت مند افراد کو یورپی یونین کا پاسپورٹ خریدنے اور ان کو کسی پریشانی کے بغیر سفر جیسی، مراعات سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دینے کا فیصلہ متنازع ہے۔

تنظیم کا کہنا ہے،"ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ یہ جمہوریت کے لحاظ سے کتنا درست ہے کہ جو دولت مند ہیں انہیں تو آپ کچھ حقوق دے دیں لیکن جو غریب ہیں انہیں اس سے محروم رہنا پڑے۔ جو لوگ روایتی طریقے مثلاً نیوٹرلائزیشن کے ذریعہ شہریت حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں افسر شاہی کے ایک خوفناک اور تکلیف دہ مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔