افریقہ: پانی کے بدلے جنس کی جبری تجارت

افریقہ کی کیبیرا نامی سب سے بڑی کچی آبادی کینیا میں ہے اور وہاں مقامی آبادی کے لیے پانی کی قلت اتنی شدید ہے کہ حصول آب کی خواہش مند لڑکیوں کو بدلے کے طور پر اکثر جنسی تعلقات پر مجبور کیا جاتا ہے۔

افریقہ: سب سے بڑی کچی آبادی، پانی کے بدلے جنس کی جبری تجارت
افریقہ: سب سے بڑی کچی آبادی، پانی کے بدلے جنس کی جبری تجارت
user

Dw

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اب اس مسئلے سے نمٹنا چاہتی ہے، جو بہت سی دیہی برادریوں میں پایا جاتا ہے۔ کیرولائن مونیوکی (فرضی نام) کینیا کے دارالحکومت نیروبی کی ایک بدنام زمانہ کچی آبادی کیبیرا میں رہتی ہیں۔ حال ہی میں ان کی ایک سولہ سالہ بیٹی کا ان کے پڑوس میں رہنے والے کئی مردوں نےجنسی استحصال کیا۔ وجہ یہ تھی کہ یہ لڑکی پینے کے پانی کی تلاش میں تھی۔ کینیا کی کیبیرا نامی بستی افریقہ کی سب سے بڑی کچی بستی ہے جہاں مسلسل پانی کی قلت رہتی ہے۔

مونیوکی نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس کچی بستی میں گزشتہ ایک عشرے سے زائد عرصے سے رہ رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''پانی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہمارے پاس پائپوں کا کوئی بندوبست نہیں جن سے ہمیں پانی مل سکے۔ پانی مہیا کرنے والے بہت سے ایجنٹ ہیں، جو دراصل خود ہی ہمارے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں اور اس طرح ہمارے مسائل کی وجہ بھی بنتے ہیں۔‘‘


لڑکیوں کے والدین کو دھمکی

کیرولائن مونیوکی کی طرح بہت سے ماں باپ اپنے بچوں، خاص طور سے لڑکیوں کو پانی کی تلاش کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ ایسی ہی دو بیٹیوں کی ایک ماں اس بارے میں بڑے محتاط انداز میں بیان دیتے ہوئے کہتی ہیں،''ہم عام طور سے اپنی نوجوان لڑکیوں کو دکانداروں سے پانی لانے کے لیے بھیجتے ہیں، جو بدلے میں ان سے جنسی خدمات کا مطالبہ کرتے اور ہماری مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘

اپنی بیٹی کو کسی بھی قسم کے خطرات میں نہ ڈالنے کی خواہش کے سبب اس خاتون نے اپنی بیٹی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تفصیلات بتانے سے پرہیز کیا کیونکہ مجرموں نے انہیں دھمکی دی تھی کہ وہ اس بارے میں بات نہ کریں۔


جنسی استحصال کی مثالیں

مجرموں نے کیرولائن مونیوکی کو ڈرایا دھمکایا تھا کہ اگر انہوں نے اپنی ایک بیٹی کے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال اور زیادتیوں کے بارے میں زبان کھولی تو وہ ان کی بیٹی کی جنسی رابطوں کے دوران بنائی گئی ویڈیو منظر عام پر لے آئیں گے۔

کیرولائن مونیوکی نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''ہمارے زیادہ تر بچوں کو جنسی تعلقات کے عوض پانی کا لالچ دیا جاتا ہے۔ پھر ایسے مجرم اپنے ایسے جرائم کی تصاویر اور ویڈیوز بھی بنا لیتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ متاثرین کو اکثر اس بارے میں متنبہ کیا جاتا ہے کہ اگر انہوں نے جنسی سرگرمیوں کو جاری نہ رکھا یا ان سے متعلق رضامندی ظاہر نہ کی، تو ان کی جنسی عمل کا شکار ہونے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی جائیں گی۔


مونیوکی کے مطابق جنسی حملوں کے کچھ واقعات ان کے گھر کے قریب ہی ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کمیونٹی ٹائلٹس میں بھی رونما ہوتے ہیں۔ استحصال کی یہ شکل بہت عام ہے اور لڑکیوں کو اس بارے میں کوئی شعور اور آگہی نہیں ہوتی کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہونےجا رہا ہے۔

ایک غیر سرکاری تنظیم Water.org، جو دنیا بھر میں پانی اور حفظان صحت کی سہولیات فراہم کرنے کا کام انجام دیتی ہے، کے مطابق کینیا کی 53 ملین کی آبادی میں سے 15 فیصد پانی کے غیر یقینی یا ناقابل بھروسہ ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔ جن میں ندی، نالے اور تالاب وغیرہ شامل ہیں۔کینیاکے لگ بھگ 41 فیصد باشندوں کو حفظان صحت، گندے پانی کی نکاسی وغیرہ کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ خاص طور سے کینیا کے دیہی علاقے اور کچی آبادیوں میں رہنے والوں کو تو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں کیونکہ وہ پانی کی ترسیل کی پائپ لائن تک رسائی سے محروم ہیں۔


اس تنظیم کے اندازوں کے مطابق ناقابل انحصار ذرائع سے اور دور دراز علاقوں سے پانی کی سپلائی پر اوسط لاگت 38 ڈالر یا 35 یورو ماہانہ بنتی ہے۔

خواتین محفوظ نہیں

کینیا واٹر اینڈ سینی ٹیشن سول سوسائٹی نیٹ ورک (کیواس نیٹ) کے مطابق خواتین اب اپنے گھروں کے لیے پانی لانے کے کام میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتیں اور سول سوسائٹی کی اس تنظیم نے اب ان زیادتیوں کے خاتمے کے لیے ایک باقاعدہ مہم شروع کی ہے۔


کیواس نیٹ کے پروگرامنگ کے سربراہ ونسنٹ اوما نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس زیادتی سے متاثر ہونے والی خواتین کی تعداد گزشتہ اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے، کیونکہ بہت سی متاثرین خاموشی سے ان جنسی زیادتیوں کو جھیلتی رہتی ہیں۔ ونسنٹ اوما کے بقول، ''ایک کمیونٹی کے طور پر، ایک معاشرے کے طور پر اس بارے میں خاموشی اختیار کی جاتی ہے، کیونکہ یہ باعث شرم بات سمجھی جاتی ہے تاہم یہ جرم بھی ہے۔ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ یہ ایک مسئلہ ہے، لیکن یہ ایک بہت ہی اہم مسئلہ تو ہے۔‘‘

اوما نے مزید کہا، ''ہم نے کچی بستیوں کا مطالعہ کیا ہے اور ہمیں پتہ چلا ہے کہ وہاں کم از کم نو فیصد لڑکیوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔‘‘


کینیا کے حکام نے بھی اس تشویشناک رجحان کی تصدیق کی ہے۔ پرنسپل سیکرٹری برائے ہائر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، بیاٹریس انیانگالا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ مسئلہ غریب برادریوں میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ حکومت نے پانی کے حصول کے لیے جنسی تعلقات کے جبری قیام کی تکلیف دہ حقیقت کو ختم کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ تو کیا ہے لیکن نیروبی میں حکام کو پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم برادریوں کی صاف پانی تک محفوظ رسائی کو یقینی بنانے کے عمل میں مشکلات کا سامنا بھی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔