ہاتھ سے بُنے سویٹر اور سردیاں کہاں گئیں؟

مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ستمبر کے دوران ہی گھر کے سب گرم کپڑوں، لحافوں اور بستروں کو دھوپ لگوائی جاتی تھی، جس سے آنے والے موسم کی تیاری کا پتہ چلتا تھا۔

ہاتھ سے بُنے سویٹر اور سردیاں کہاں گئیں؟
ہاتھ سے بُنے سویٹر اور سردیاں کہاں گئیں؟
user

Dw

مگر چند برسوں سے موسمیاتی تبدیلی نے سردی کو دسمبر اور جنوری کے دو ماہ تک ہی محدود کر دیا ہے۔ ابھی سردی کو پسند کرنے والے اس کا ٹھیک سے سواگت بھی نہیں کر پاتے کہ موسم ختم ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہم اپنی سردی کی ثقافتی پہچان بھی بھولتے جا رہے ہیں اور جن کو یاد ہیں وہ نئی نسل کو ان کو بھر پور طریقے سے منتقل کرنے میں ناکام ہیں۔

جہاں سرما کی کہر میں لبمی سڑکوں پر چلنا اچھا لگتا ہے، وہیں اس سردی سے بچنے کے لیے ہاتھ سے بنے ہوئے سویٹر استعمال کیے جاتے تھے، جن میں اوون کے عمدہ ڈائزائن کے ساتھ بنانے والے کے ہاتھوں کی نرمی اور محبت بھی شامل ہوتی تھی۔ یہ بھی ہماری سردیوں کی ثقافت تھی اور اس کو عموماً "کوٹی" کہا جاتا تھا۔ مگر رفتہ رفتہ اس کی جگہ مشینی بُنائی والی جرسیوں نے لے لی۔


برینڈڈ جرسیاں چونکہ ہر کسی کی پہنچ سے باہر ہوتی ہیں، اس لیے اس کا حل لاہور کا لنڈا بازار ہے، جیسے ہی خنک ہوائیں سردی کی آمد کا اعلان کرتی ہیں، ویسے ہی لنڈے کی جرسیاں بیچنے والے اپنے موبائل بازار لگا لیتے ہیں۔ ویسے اب تو رفتہ رفتہ یہ سہولت بھی مہنگائی کے ہاتھوں عوام کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہے مگر یہ ایک کم ہوتے روزگار کے دور میں ایک بہترین ذریعہ ہے باعزت روزی کمانے کا۔

ایک تحقیق کے مطابق سردی سے بچنے کے لیے ایسی غذائیں، جن میں اومیگا فیٹی 3 ایسڈ ہو وہ بہترین مانی جاتی ہیں۔ یہ جسم میں خون کو جمنے نہیں دیتیں۔ اس کی روانی کو برقرار رکھتی ہیں۔ سردیوں میں سردی سے بچنے کے لیے ہر کوئی مختلف غذائیں استعمال کرتا ہے، جن میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جن سے بدن میں حرارت پیدا ہوتی ہے اور سردی کا احساس کم ہو جاتا ہے۔


اس کے علاوہ چند سوغاتیں ایسی ہیں جو موسم کا مزہ دوبالا کر دیتی ہیں۔ بلکہ اگر کہا جائے کہ ان کی وجہ سے ہی بہت سے لوگ سردیوں کا انتظار کرتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ مگر جدت ان خصوصی تیار کی گئی غذاؤں کو بھی ختم کرتی جا رہی ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بدلتا وقت ان غذاؤں کی ترسیل اور بنانے کے انداز میں جدت پیدا کرتا ۔ ہر علاقے کے میں کم و بیش ایک جیسے اجزا کے ساتھ مختلف سوغاتیں تیار کی جاتی ہیں، جن میں ڈرائی فروٹس کا استعمال زیادہ سے زیادہ ہوتا ہے۔

جیسے جیسے زمانہ جدید ہوتا جا رہا ہے، ہم ان سردی کی مخصوص ثقافتی غذاؤں کو فراموش کرتے جا رہے ہیں۔ یا پھر یہ کہہ لیں کی ہماری مصروف نسل نے نئی پیڑھی تک ان غذاؤں کو پہنچنے ہی نہیں دیا۔ مگر اگر وقت کی جدت کو صحیح استعمال کیا جائے تو انہی بھولی بسری صحت مند غذائی تراکیب کو عام کر کے ان سے پیسہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔


آج کل بہت سے لوگ آن لائن پنجیری بیچ رہے ہیں اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ پنجیری ہر جگہ مقبول ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی ایسی سوغاتیں ہیں، جن کو وہ خواتین جو گھر بیٹھے کچھ کرنا چاہتی ہیں بنا کر آن لائن بیچا جا سکتا ہے۔ سردیوں میں آگ کی گرمی لینے کا الگ مزہ ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا، جب اس کےلیے کوئلے کی انگھیٹی استعمال کی جاتی تھی۔ مگر وقت نے اس کو بجلی اور گیس کے ہیٹر میں بدل دیا ہے اور سب اپنے اپنے کمروں تک محدود ہو گئے ہیں۔ جب انگھیٹی کا دور ہوا کرتا تھا تب خاندان کے سبھی لوگ خصوصا رات کے کھانے کے بعد سونے سے پہلے انگھیٹی کے گرد بیٹھ کر آگ بھی سینکتے تھے، گپ شب بھی لگاتے تھے اور ڈھیروں ڈھیر مونگ پھلی بھی کھاتے تھے۔

آج کل بہت سے لوگوں کو یہ کہتے ہم سنتے ہیں کہ سردیوں کا موسم بہت بوریت کرتا ہے لیکن اس کی اصل وجہ یہ موسم نہیں ہے اس موسم کو گزارنے طریقہ بدلنا ہے۔ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ اس سردی کی شدت کو کم کرنے کے لیے ہم مل بیٹھتے تھے تو یہ مل بیٹھنا ہمارے رشتوں کو مضبوط کرتا تھا۔


سردی سے جیسے جسم اکٹھا ہوتا ہے، ایسے ہی سردی میں اکٹھے بیٹھنے سے گھرانہ اکٹھا ہوتا ہے۔ آج بھی گرم چادر، ہاتھ کا بنا ہوا سویٹر، دیسی سوغاتیں اور اکٹھے بیٹھ کر آگ تاپنے سے بہتر طریقہ سردی گزارنے کا موجود نہیں ہے۔ اسی لیے ہم ڈھونڈ رہے ہیں کہ سردیاں کہاں گئیں؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔