جبری تبدیلی مذہب کا سیزن شروع ہو گیا

سال میں ایک دو ماہ ایسے آتے ہیں، جن کے دوران مذہب کی تبدیلی کے ایک کے بعد ایک واقعات سامنے آتے ہیں۔ عام طور پر ایسے کیسز کا آغاز اپریل سے ہوتا ہے اور عقیدے بدلنے کا امسالہ موسم شروع ہو چکا ہے۔

جبری تبدیلی مذہب کا سیزن شروع ہو گیا
جبری تبدیلی مذہب کا سیزن شروع ہو گیا
user

Dw

مولا نظر نہ لگائے، اپریل کے شروع ہوتے ہی تبدیلی مذہب کے تین سے چار کیسز رپورٹ ہو گئے ہیں۔ ان میں سے ایک رپورٹ تھرپارکر کے گاؤں بکھو کی ایک چودہ سالہ ہندو بچی کی بھی ہے، جو ایک سال بعد رستم جونیجو کے گھر سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایک سال پہلے بچی کو تھرپارکر سے اغواء کر کے ھرپار لایا گیا۔ بتایا گیا کہ اس بچی نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا ہے اور پچاس سالہ رستم جونیجو سے شادی کرلی ہے، جس کے پہلے ہی پانچ شادی شدہ بچے ہیں۔ یہ تو شاید آپ جانتے ہی ہیں کہ سندھ میں کم عمر لڑکیاں اپنی 'رضامندی' سے اسلام قبول کرتی ہیں، اس لیے اس بچی کو زنجیروں سے باندھ کر گھر میں قید کیا گیا۔ اب چونکہ اس پورے عمل کا نام 'شادی' ہے، لہذا اس پورے عرصے میں بچی کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے جنسی زیادتی بھی نہیں کہا جا سکتا۔

چودہ سال کی اس بچی کو زنجیروں اور تشدد والی یہ عزت اور محبت راس نہیں آئی، اس لیے ایک سال بعد جب اس کو موقع ملا تو وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس نے تیس کلومیٹر کی دوڑ لگائی۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق یہ بچی حاملہ تھی اور زیادہ پیدل چلنے سے اس کا حمل ضائع ہو گیا۔


پھر سے سوچ بچار کی طرف آتے ہیں۔ ایک بچی ہے، جس کی عمر چودہ سال ہے، اس نے مذہب بدل لیا، اپنی ‘مرضی‘ سے شادی کرلی اور اسی سچی محبت سے چھٹکارا پانے کے لیے بھاگ گئی، اور اتنا بھاگی کہ اس کے پیٹ میں جو ننھی سی جان پل رہی تھی وہ دم توڑ گئی۔ کیا مجھے کوئی سمجھا سکتا ہے کہ یہ سب کیا ہے؟ کیا کوئی پیمانہ ہے آپ کے پاس کہ اندازہ لگایا جا سکتا ہو کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟

اس چھوٹی سی معصوم بچی پر کیا قیامت گزری ہو گی؟ ہم اور آپ جیسے لوگ گھر میں آرام سے بیٹھے اس بارے میں یا تو لکھ سکتے ہیں یا پڑھ سکتے ہیں لیکن اس قیامت کا اندازہ پھر بھی نہیں لگا سکتے۔ یہ ہم کس زمانے میں جی رہے ہیں۔ کیا ہم چھ سو سال پیچھے بادشاہ عمر سومرو کے زمانے میں رہ رہے ہیں، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ہندو لڑکی ماروی کو ننگرپار سے زبردستی اٹھا کر لے گیا تھا۔


عورت فاؤنڈیشن کے مطابق ہر سال کم از کم ایک ہزارغیر مسلم لڑکیوں کا جبری طور پر مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے۔ دو سال قبل اکتوبر2021ء میں پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی نے جبری تبدیلی مذہب کے بل کو مسترد کیا تھا۔ بل کو غیراسلامی قرار دیا گیا اور اس بات سے بھی انکار کیا گیا کہ ملک میں جبری تبدیلی مذہب کوئی مسئلہ بھی ہے۔ اس سے پہلے سندھ حکومت نے دو بار جبری تبدیلی مذہب اور جبری شادیوں کو غیر قانونی قرار دینے کی کوشش کی تھی۔ اس بل کے تحت 18 سال سے کم عمر کے بچے اپنے ماں باپ کی رضامندی کے بغیر مذہب تبدیل نہیں کریں گے۔اور یہ کہ جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے والوں کو قانون کے ذریعے سزا دی جائے گی۔ لیکن دونوں بار قدامت پسند مسلم گروہ آڑے آ گئے اور قانون پر عملدرآمد نہیں ہو پایا۔

جس ملک میں روزانہ کی بنیاد پر بچوں کے ساتھ پیش آنے والے جنسی زیادتی، تشدد کے واقعات پر بھی معاشرے میں کوئی حساسیت نہ پائی جاتی ہو سوچیے وہاں اقلیتوں کی بچیوں اورعورتوں کا کیا حال ہوتا ہو گا؟ کیا ملکی پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی، جس نے جبری طورمذہب تبدیلی کے بل کو مسترد کیا ہے، اس سوال کا جواب دے سکتی ہے کہ اسلام کی سچائی صرف کم عمر لڑکیوں پر ہی کیوں واضح ہو رہی ہے؟ محبت یا شادی کے لیے ہر بار غیر مسلم کو ہی کیوں اپنا مذہب بدلنا پڑتا ہے؟ غیر مسلموں میں بھی ایک عورت پر ہی کیوں دین کی حقیقت کھل رہی ہے؟


نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔