آنحضرتؐ کا وجود مبارک اتحاد کا بہترین محور... نواب علی اختر

مسلمانوں کے اتحاد کا مرکزی نقطہ پیغمبرؐ اسلام ہیں اور آپؐ کی عظیم شخصیت آپ کا اسم مبارک، محبت، کرامت اور عظمت امت اسلامی کی فکری یکجہتی کا مرکز ہے۔

تصویر بشکریہ en.irna.ir
تصویر بشکریہ en.irna.ir
user

نواب علی اختر

بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی نے مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ مسلمان رسول اکرمؐ کی ذات بابرکت کو اپنے اتحاد کا محور قرار دیں اور 12 سے 17 ربیع الاول تک کے ایام کو ہفتہ وحدت کے طور پر منائیں۔ ان کی اس تجویز کا پورے عالم اسلام میں بھرپور خیر مقدم کیا گیا اور اس پورے ہفتے میں عید میلاد النبی کے سلسلے میں جشن اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اتحاد کے معنی و مفہوم بہت آسان اور واضح ہیں، اس سے مراد ہے مسلمان فرقوں کا باہمی تعاون اور آپس میں ٹکراؤ اور تنازعے سے گریز۔ اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کی نفی نہ کریں، ایک دوسرے کے خلاف دشمن کی مدد نہ کریں۔ عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے۔ یہ مستحکم حصار اور مضبوط قلعہ اگر تعمیر کر لیا جائے تو کوئی بھی طاقت اسلامی ملکوں اور قوموں کی حدود میں قدم رکھنے کی جرات نہیں کرسکے گی۔

یہ ان کی شخصیت تھی اور دوسری طرف ان کا لایا ہوا پیغام انسانی سعادت کے لئے سب سے عظیم اور بہترین پیغام ہے جو توحید، انسان کی عظمت و سربلندی اور انسانی وجود کے کمال و ارتقا کا حامل ہے اور یہ کہنا بجا ہے کہ انسانیت آج تک اس پیغام کے تمام پہلوؤں کو بطور کامل اپنی زندگی میں نافذ نہیں کر سکی ہے، لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ انسانی ترقی اور کمال ایک نہ ایک دن اپنے مطلوبہ مقام تک ضرور رسائی حاصل کرے گا اور یہی انسانیت کا نقطہ عروج و کمال ہوگا۔ البتہ اس مفروضہ کی بنیاد پر کہ انسانی سوچ اور فکر اور اس کا علم وادراک روز بروز ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام کا پیغام زندہ و جاوید ہے کوئی وجہ نہیں کہ ایک نہ ایک دن یہ پیغام انسان کی معاشرتی زندگی میں اپنا مقام حاصل نہ کر لے۔


نبی اکرمؐ کے پیغام توحید کی حقانیت، اسلام کا درس زندگی اور انسانی سعادت اور ترقی کے لیے اسلام کے بیان کردہ زریں اصول انسان کو اس مقام پر پہنچا دیں گے کہ وہ اپنی گمشدہ منزل تلاش کر لے اور پھر اس راہ پر گامزن ہو کر ترقی اور کمال کی منازل طے کرے۔ وہ چیز جو ہم مسلمانوں کے لیے اہم ہے وہ یہ کہ اسلام اور پیغمبرؐ کی زیادہ سے زیادہ شناخت و معرفت حاصل کریں، آج دنیائے اسلام کا سب سے بڑا درد فرقہ واریت ہے۔ عالم اسلام کی یکجہتی اور اتحاد کا محور پیغمبرؐ اسلام کے مقدس وجود کو قرار دیا جا سکتا ہے جن پر تمام مسلمانوں کا ایمان ہے اور جو تمام انسانوں کے احساسات کا مرکزی نقطہ ہیں۔ ہم مسلمانوں کے پاس پیغمبرؐ اسلام کے مقدس وجود سے بڑھ کر کوئی ایسا جامع اور واضح نقطہ اتحاد نہیں ہے کہ جس پر تمام مسلمانوں کا ایمان و اعتقاد بھی ہو اور جن (ص) کے وجود سے سب مسلمانوں کا اندرونی اور قلبی رشتہ بھی ہو اور یہی نقطہ اتحاد کا بہترین مرکز و محور ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے جو ہم ادھر چند سالوں میں مشاہدہ کر رہے ہیں کہ قرون وسطی کی طرح مستشرقین نے آنحضرتؐ کے وجود مقدس پر اہانت آمیز تنقید اور تبصرے کرنا شروع کر دیئے ہیں۔

قرون وسطی میں بھی عیسائی پادریوں نے اپنی تحریروں، تقریروں اور نام نہاد آرٹ کے فن پاروں میں جب مستشرقین کی تاریخ نویسی کا آغاز ہوا تھا، پیغمبرؐکی شخصیت کو نشانہ بنایا۔ گزشتہ صدی میں بھی ہم نے ایک بار پھر دیکھا کہ مغرب کے غیر مسلم مستشرقین نے جس چیز کو شک و شبہ اور جسارت و اہانت کا نشانہ بنایا تھا وہ پیغمبرؐ اسلام کی مقدس شخصیت تھی۔ اب کئی سال گزرنے کے بعد ان حالیہ سالوں میں ہم پھر دیکھ رہے ہیں کہ میڈیا اور نام نہاد ثقافتی لٹریچر کے ذریعہ دنیا کے مختلف مقامات پر آپؐ کی شخصیت پر ایک بار پھر حملے کرنے کی جسارت کی گئی ہے۔ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے کیونکہ انہوں نے اس حقیقت کو بھانپ لیا ہے کہ مسلمان اسی مقدس شخصیت کے وجود پر جمع ہو سکتے ہیں کیونکہ ان سے تمام مسلمانوں کو عشق اور والہانہ محبت ہے لہذا انہوں نے اسی مرکز کو حملے کا نشانہ بنایا۔


آج علمائے اسلام اور مسلمان دانشوروں، مصنفین، شعرا اور اہل فن حضرات سب کی ذمہ داری ہے کہ ان سے جتنا بھی ممکن ہو پیغمبرؐ اسلام کی شخصیت کے عظیم پہلوؤں کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے سامنے بیان کریں ان افراد کا یہ کام امت اسلامیہ کے اتحاد میں اور ان مسلم نوجوانوں کی رہنمائی میں جو اسلام کی طرف بڑی شدت سے راغب نظر آ رہے ہیں، بہت زیادہ مددگار ثابت ہوگا۔ امام خمینیؒ کی با بصیرت نظر کی بدولت اسلامی انقلاب کا ایک فیض یہ ہے کہ میلاد النبیؐ کے ایام کو ہفتہ وحدت و اتحاد کا نام دیا گیا۔ اس لحاظ سے بھی اس مسئلہ کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی کہ بہت سے لوگوں کی دیرینہ خواہش تھی کہ اسلامی اتحاد کے لیے کام کیا جائے۔ بعض لوگ تو صرف بات کی حد تک کوئی نظریہ دیتے ہیں لیکن بعض لوگوں کی واقعی دیرینہ خواہش تھی بہرحال اس آرزو اور خواہش کی تکمیل کے لیے عملی اقدام ضروری تھا کیونکہ کوئی خواہش بغیر عملی جدوجہد کے پوری نہیں ہو سکتی۔

جب ہم نے اس سمت میں عملی اقدامات اور مطلوبہ مقصد تک پہنچنے کی راہ کے بارے میں سوچا تو اس محور کے طور پر جو بہترین اور عظیم ترین شخصیت ہمارے سامنے جلوہ گر ہوئی۔ وہ فخر کائنات حضرت محمد مصطفیؐ کی ذات تھی کہ جن کی مرکزی حیثیت تمام مسلمانوں کے عقائد وافکار کا سر چشمہ ہے۔ اسلامی دنیا میں وہ نقطہ جس پر سب متفق ہوں اور سب کے عقائد اور جذبات و احساسات کی ترجمانی بھی ہو جائے شاید میسر نہ آسکے یا ہو تو شاذ و نادر ہی ہو کیونکہ جذبات کا انسانی زندگی میں خاص کردار ہے اور یقیناً بعض وہ اقلیتیں جو مسلمانوں سے علیحدہ ہو گئی ہیں ان کے درمیان کچھ جذبات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتیں اور عشق و محبت یا توسل اور وسیلے کی منکر ہیں پھر بھی عام مسلمانوں کے لئے پیغمبرؐ اسلام سے محبت اور عشق و عقیدت دین کا ایک لازمی عنصر ہے لہذا آپؐ کا وجود مبارک وحدت کا بہترین محور بن سکتا ہے۔


پیغمبرؐاسلام کی میلاد کے ایام ہر مسلمان کے لیے تاریخ کے سنہرے مواقع ہیں۔ اسی ولادت کی برکت سے تاریخ بشریت نے ایک نیا رخ اختیار کیا، کائنات کی ہر فضیلت کا سرچشمہ آپؐ کی بعثت اور مکارم اخلاق ہیں ہر مسلمان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ دنیائے اسلام کی محبتوں کا مرکز اور مسلمانوں کے مختلف مذاہب ومکاتب کا محور حضرت محمد مصطفیؐ کا مقدس وجود ہے چونکہ تمام مسلمانوں کو آپؐ سے عشق ہے لہذا آپ تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں کے لئے نقطہ اتحاد رہے ہیں۔ اسی لیے آپؐ کے ایام ولادت مبارک بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ مسلمانوں کے اتحاد کا مرکزی نقطہ پیغمبرؐ اسلام ہیں اور آپ کی عظیم شخصیت، آپ کا اسم مبارک، محبت، کرامت اور عظمت امت اسلامی کی فکری یکجہتی کا مرکز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کا وجود امت اسلامیہ کی ہر فرد کے لئے پوری تاریخ اسلام میں وحدت کا محور رہا ہے۔

دین اسلام کا کوئی ایسا عنوان نہیں ہے جو آپ کے مقدس وجود کی طرح ہر لحاظ سے معقول ہو یا روحانی اور معنوی یا اخلاقی لحاظ سے تمام اسلامی مکاتب کے لیے قابل قبول ہو۔ یہی وہ مرکزی محور اور نقطہ ہے جو ہمہ گیر ہے ورنہ قرآن و کعبہ اور واجبات وعقائد سب مشترک ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک انسانی شخصیت کے ایک پہلو مثلا عقائد، محبت، روحانی میلان، کردار وغیرہ سے متعلق ہیں اور مذکورہ مفاہیم مسلمانوں کے مابین مختلف تشریحات اور تفاسیر کے حامل ہیں لیکن وہ چیز جو تمام مسلمانوں میں فکری واعتقادی بالخصوص جذبات و احساسات کے حوالے سے اتحاد و یکجہتی کا محور بن سکتی ہے، خود پیغمبرؐ اسلام حضرت محمد مصطفیؐ کا مبارک وجود ہے۔ اس کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس محبت میں روز بروز آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور آپ کے مقدس وجود کی طرف معنوی اور روحانی رجحان کو مسلمانوں اور اقوام عالم کی ہر فرد کے ذہن میں اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔