بگڑتی معیشت پرمجرمانہ خاموشی ’حب المودی‘ کے سوا کچھ نہیں

حقائق چھپانا مجرمانہ عمل کے زمرے میں آتا ہے اور قومی اقتصادی حقیقت کو چھپانے کے عمل کو ’حب المودی‘توکہا جاسکتا ہے حب الوطنی ہرگزنہیں کہا جاسکتا۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

جس وقت ہندوستان ایک بڑے معاشی بحران کا سامنا کررہا ہے اس وقت ہندوستانی میڈیا آبادی،ریزرویشن اور چدمبرم کی خبروں کو ترجیح دے رہا ہے یاں یوں کہئے کہ ان مدوں کو ترجیح دے کر وہ 125کروڑعوام سے وابستہ مدوں کوتقریباً پوری طرح نظرانداز کررہا ہے ۔ شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ میڈیا اس لئے بھی خاموش ہے کہ ملک کے وزیراعظم نریندرمودی نے جیسا کہ کہا ہے کہ ان کا حدف ہندوستان کی معیشت کو500ٹریلین ڈالرتک پہنچانے کا ہے اس لئے وہ اپنے حدف کوپوراکرنے میں لگے ہوئے ہیں لہٰذا انہیں ہرگز’پریشان‘ نہ کیا جائے خواہ ملک کی عوام پریشان ہوجائے۔مگراس دوران میڈیا کا ایک طبقہ ایسا بھی سامنے آیا جس نے کسی حد تک اس مسئلے کو باعث تشویش سمجھا اورحکومت کوخواب غفلت سے بیدارکرنے کے لئے نمایاں طورپراسے شائع کیا۔

نریندرمودی لوک سبھا انتخابات2019 میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کو تاریخی جیت حاصل ہونے کے بعد ہی مختلف حلقوں کی جانب سے اندیشہ ظاہرکیا گیا تھا کہ دوسری بار پارلیمان میں حاصل ہوئی اکثریت مودی حکومت کو اپنے کئے گئے وعدوں اوردعوو ں کو حقیقت میں بدلنے کا موقع فراہم کرتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس وقت جو شیئربازاراورروپئے کی قدرمیں اضافہ بی جے پی کی جیت کی خبرکا خیرمقدم کر رہے ہیں ان کا جشن چندروزبعد ہی پھیکا پڑجائے گا اور جب اس جیت کے جشن کا غبار بیٹھے گا تونریندرمودی کے سامنے کئی سخت معاشی چیلنجز ہوں گے۔


مودی کے پہلے دور کا معاشی ریکارڈ ملا جلا رہا ہے۔ورلڈ بینک کی سنہ 2019 کی بزنس کرنے کی درجہ بندی میں ہندوستان کی پوزیشن 77 ویں نمبر تک آگئی تھی جو کہ سنہ 2014 میں 134 ویں تھی جب انھوں نے پہلی بار عہدہ سنبھالا تھا۔مودی کے پہلے دور میں ایک حلقے کی طرف سے کہا گیا کہ ہندوستان دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت بنے گا لیکن اسی دوران بدعنوانی سے نمٹنے کے نام پر تین چوتھائی سے زیادہ کرنسی نوٹ پر پابندی لگانے کی نریندر مودی کی سب سے بڑی بازی الٹی پڑ گئی اور اس نے معیشت کی ترقی کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا۔ بروقت متبادل نئے نوٹ کی کمی نے ہندوستان کی غیر رسمی معیشت کو مفلوج کر دیا اور اس کے نتیجے میں لوگوں کی ملازمتیں جانے لگیں۔ نئے قومی سیلز ٹیکس کا نفاذ بھی ٹھیک طور پر نہیں ہو سکا۔ اس وجہ سے پیدا ہونے والی پریشانیوں نے لاکھوں چھوٹے اور درمیانی سطح کے کاروبار کو شدید طور پر نقصان پہنچایا۔

دسمبر سنہ 2018 کی سہ ماہی میں معاشی ترقی کی شرح سست روی کا شکار ہو کر 6.6 فیصد رہ گئی جو کہ اس سے قبل کی چھ سہ ماہیوں میں سب سے کم ترقی کی شرح تھی۔ حالیہ دنوں حکومت کی منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2016 سے 2017 کے درمیان بے روزگاری گذشتہ 45 سالوں میں سب سے زیادہ تھی۔اقتصادی محاذپر ہندوستان کے لئے ایک اوربری خبرآئی ہے۔ ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح 45 سالوں کے بدترین دور میں ہے۔ یہی حقیقت کچھ دن پہلے بھی سامنے آئی تھی لیکن مودی حکومت نے اسے خیالی بتا کرمسترد کردیا تھا۔ مگرتازہ رپورٹ کی مانیں توموجودہ وقت میں تقریبا ہر سیکٹر میں بھرتیاں کافی کم ہیں اور کساد بازاری کے حالات نظر آرہے ہیں۔


کیئر ریٹنگ لمیٹڈ کے ایک سروے کے مطابق بینکوں، انشورنس کمپنیوں، آٹو موبائلس، لاجسٹکس اور انفراسٹرکچر سیکٹر میں بھرتیاں سب سے کم ہیں۔ اس سال مارچ میں ختم ہوئے مالیاتی سال کی 1,000 کمپنیوں کی رپورٹ کے اندازے کے بعد یہ بات کہی گئی ہے۔ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق اس دوران سروس سیکٹر ایک ایسی جگہ ہے جہاں سب سے زیادہ امیدیں لگی رہتی ہیں۔شرح ملازمت کی بات کریں تو یہاں سب سے زیادہ مواقع دیکھنے کو ملے ہیں۔ مارچ سہ ماہی میں ملک کی جی ڈی پی نمو 5 سال کی سب سے کم سطح پر رہی ہے اور اب ہائرنگ میں کمی سے صاف ہے کہ ملک اقتصادی بحران کے دور میں ہے۔ ہندوستان کی معیشت کی تباہی سے ملک کو پرکشش سرمایہ کاری جگہ کے طور پر پیش کرنے کے وزیر اعظم نریندر مودی کے منصوبہ کو بھی اس سے جھٹکا لگ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ملازتوں کا بحران گہرانے سے سماجی کشیدگی میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

کیئر ریٹنگ کے مطابق مارچ 2017 میں روزگار میں اضافہ 54 لاکھ کا تھا جو مارچ 2018 میں 57 لاکھ کے قریب پہنچ گیا، یہ 6.2 فیصد کا اضافہ تھا۔ اس سال مارچ میں یہ اعداد و شمار 60 لاکھ کا ہی رہا اور جاب نمو محض 4.3 فیصد ہی رہی۔ کیئر ریٹنگ کی مانیں تواسپٹےلٹی یعنی سروس سیکٹر میں ہائرنگ اور آو ٹ سورسنگ میں اضافہ ہوا ہے لیکن مائننگ،ا سٹیل اور آئرن جیسی بڑی کمپنیوں میں ملازمین کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ اس کی وجہ پیداوار میں کمی اور کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے جیسے معاملے ہیں۔


ہندوستان کی معیشت سست روی کا شکار ہے۔ ورلڈبینک کی رپورٹ کے مطابق بڑی معیشت کے معاملے میں ہندوستان کی رینکنگ ساتویں نمبر پر آگئی ہے۔ ہندوستان کی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی)اس وقت 2.7ٹریلین ڈالر ہے جب کہ نریندرمودی نے2024تک ہندوستان کو5ٹریلین ڈالرکی معیشت بنا نے کا حدف رکھاہے۔ وہیں دوسری طرف رواں ماہ میں ماہرین اقتصادیات کے خیالات کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ اگلی سہ ماہی میں آٹوانڈسٹری سے5لاکھ لاگوں کی نوکریاں ختم ہوسکتی ہیں۔ سیلس مین، پینٹنگ، ویلڈنگ، کاسٹنگ درجہ کی نوکریاں جلدی جائیں گی۔اس سیکٹرمیں پہلے ہی دوسے تین لاکھ نوکریاں ختم ہوچکی ہیں۔ ہربڑی کمپنی میں کم ازکم10 فیصد چھٹنی ہورہی ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ جس مسئلے سے پوراملک وابستہ ہے اس کوخاص اہمیت ہی نہیں دی جارہی ہے۔

ٹی وی چینلوں پرمذہب سے متعلق ایسی ایسی بحثیں ہورہی ہیں جیسے ملک کے لئے کوئی دوسرامسئلہ ہی ہے۔ہم آج جن اقتصادی حالات سے گزر رہے ہیں ان پرکوئی بولنے کوہی تیارنہیں ہے اوراگر کوئی ہمت کرکے بولتا ہے تواسے غداراورملک دشمن قراردیئے جانے کا ڈرستارہا ہے۔قومی بحثوں میں خیالی سوالات کوحقیقی بنا کرعام لوگوں کو جبراً منوانے کی کوشش کی جارہی ہے۔۔ جن لاکھوں لوگوں کی نوکریاں گئی ہیں یا جن کی جانے والی ہیں اورجنہیں نئی نوکری نہیں مل رہی ہے،ان کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہورہا ہے۔آخرملک کے سلگتے حقیقی حالات کوکب تک چھپانے کی کوشش کی جاتی رہے گی؟۔یہ خاموشی دراصل مجرمانہ کہی جاسکتی ہے کیونکہ فضول کی باتیں کرکے حقائق کوچھپانا مجرمانہ عمل کے زمرے میں آتاہے اس لئے اس طرزعمل کو ’حب المودی‘ توکہا جاسکتا ہے لیکن حب الوطنی ہرگزنہیں کہا جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔