طنزومزاح: اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے...تقدیس نقوی

اگر ان بلوائیوں کے قائدین میں ہمارے میرصاحب جیسی تھوڑی سی بھی سمجھ ہوتی تو وہ دھاوا بولنے سے پہلے ہمارے ملک کے ان لیڈران میں سے کسی سے مشورہ کرلیتے، جن کا دعویٰ ہے کہ ان کے لئے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے

امریکہ میں تشدد / Getty Images
امریکہ میں تشدد / Getty Images
user

تقدیس نقوی

نیا سال شروع ہوتے ہی امریکہ سے ایک ناقابل یقین خبر سننے اور دیکھنے کو ملی۔ یہ خبر اتنی ہی عجیب اور حیران کن تھی جتنی اگر کوئی یہ خبر اڑادے کہ امریکہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب دنیا کے کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرے گا۔ حیران کن یوں بھی تھی کہ اب تک امریکہ ایسے واقعات اپنے ملک سے باہر انجام دینے کا تجربہ رکھتا تھا نہ کہ اب خود اپنے گھر کے اندر بھی ایسے واقعات رونما ہونے کے برے دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔

اس خبر کا تعلق ایک ایسے واقعہ سے تھا جس کو انجام دینے والے لوگ نہ تو اس کے اہل تھے اور نہ ہی اس کو انجام دینے کے لئے موزوں اور تربیت یافتہ، کسی مہذب سوسائٹی میں بامقصد اور تخریبی فساد کروانے کے لئے جس دوراندیشی، سیاسی تدبر اور کمینگی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان لوگوں میں سرے سے ندارد تھی۔ اب ان بے راہ رو، سر کٹے مرغے کی طرح ادھر ادھر بھٹکتے امریکیوں کو بھلا کون سمجھائے کہ میاں یہ سب کچھ انجام دینا آپ کے بس کا کھیل نہیں ہے۔ اس طرح کے ماہرانہ کام آنتہائی چابکدستی سے انجام دینا تو صرف ہمارے ایشیائی ممالک کا طرہ امتیاز ہے جہاں ایسے واقعات روز مرہ کا معمول ہیں اور جن کے نتائج بھی خاطر خواہ نکلتے ہیں۔


آفس میں ٹائی سوٹ پہن کر بیٹھنے والوں کے لئے دوسرے ممالک کو دیوالیہ کرا دینا الگ بات ہے مگر سڑکوں پر کامیاب فساد کرا دینا اور حکومتی اداروں اور عمارتوں پر دھاوا بول دینا صرف اور صرف ہمارے ایشیائی ممالک کے منچلوں کو ہی زیب دیتا ہے۔

چلیے اب خبر بھی سن لیجیے۔ ہوا یوں کہ مبینہ طور پر سبکدوش صدر کے ناتجربہ کار مگر جذباتی کچھ حامیوں نے ملک کی جمہوریت کا مرکز سمجھی جانے والی عمارت 'کیپیٹل ہل' پر اچانک دھاوا بول دیا اور حزب مخالف کے دفاتر پر قابض کرنے کی کوشش بھی کی، جس کے نتیجہ میں کچھ افراد کی موت بھی واقع ہوئی۔ یہ تو نہیں معلوم کہ حقیقتاً اس حملہ کی غیر منظم بھیڑ کی قیادت کون کر رہا تھا مگر سبکدوش صدر صاحب نے ان بلوائیوں کو اپنے مخلص جانبازوں کا ٹائٹل ضرور عطا کیا۔ یہ واقعہ بظاہر تو یکلخت ہوتا ہوا نظر آیا مگر وہاں لگائے جانے والے نعروں اور ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے جھنڈوں سے کوئی بھی اندھا بہرا اس نتیجہ پر پہنچنے میں دیر نہیں لگاتا کہ یہ سب کارستانی الیکشن میں ہاری ہوئی کھسیانی بلی کی ہے جو اب دل برداشتہ ہوکر انتہائی مایوسی کے عالم میں 'کیپیٹل ہل' کے کھمبے نوچ رہی تھی۔


ان بلوائیوں کے قائدین میں ہمارے میرصاحب جیسی اگر تھوڑی سی بھی سمجھ بوجھ ہوتی تو وہ دھاوا بولنے سے پہلے ہمارے ملک کے ان لیڈران میں سے کسی سے مشورہ کرلیتے جن کا دعویٰ ہے کہ ان کے لئے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے اور جن کی پوری سیاسی زندگی صوبائی اور ملکی سطح پر دنگے اور فساد کروانے میں گزری ہے اور جو اس دنگا بازی کی فیلڈ میں عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ ہمارے میر صاحب نے پچھلا الیکشن اپنی اس فسادی مہارت کے بل بوتے پر ہی جیتا تھا اور وہ بھی بغیر کسی خارجی مدد کے۔

ہمارے ملک میں ہونے والے ساس بہو کے روز روز کے غیرمسلح مگر جان لیوا جھگڑوں اور ہمارے گلی کوچوں میں آئے دن مچائی جانے والی دھما چوکڑی سے ہی اگر یہ آمادہ فساد امریکی سبق حاصل کرلیں تو انہیں پھر کسی خاص تربیت اور ڈگری حآصل کرنے کی کوئی ضرورت نہ رہے اور وہ بہت جلد اس فیلڈ میں بھی خود کفیل ہوسکتے ہیں۔ ہماری ان خودساختہ تربیت گاہوں سے تحصیل یافتہ دنگائی جب اپنی زندگی میں مزید ترقی کی منازل طے کرتا ہے تو وہ ایک دن ممبر پارلیمنٹ بن کر صدر ایوان پارلیمنٹ میں بغیر کسی سبب کے دھاوا بولنے کا اہل ہوجاتا ہے اور قانون اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پاتا۔


اگر دنگا فساد کرانے کی صلاحیت حاصل کرنے کے خواہاں یہ امریکی حضرات ہمارے ان سیاسی رہنما جو کبھی صوبائی سطح پر دنگا فساد کرانے میں یدطولی رکھتے تھے اور انہیں ان کی ان بے مثال کارگزاریوں کے اعتراف میں ہم لوگ اپنے ملک کی باگ ڈور سونپ دیتے ہیں، تاکہ وہ موقعہ ملتے ہی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا سکیں سے رجوع کرلیتے تو وہ اس واقعہ کے سبب پوری دنیا میں اس طرح ذلیل و خوار ہرگز نہ ہوتے۔ ہمارے یہ قائدین نہ صرف انہیں اپنے گرانقدر مشوروں سے نوازتے بلکہ انہیں اپنے یہاں چائے پر بھی مدعو کرتے۔ کیونکہ امریکہ کی تاریخ میں یہ ایک انتہائی بدنظم اور بھونڈا احتجاج تھا اس لئے ہم نے اپنے میرصاحب سے جنھیں اس فیلڈ کا بہت طویل تجربہ ہے اس حملہ کے ناکامیاب ہونے کے اسباب معلوم کرنے کی جسارت کرڈالی۔ اپنے تجربہ کی روشنی میں موصوف فرمانے لگے:

’’بھئی سب سے بنیادی غلطی تو ان لوگوں سے یہ ہوئی کہ وہ لوگ اپنے ہاتھوں میں اپنی ہی پارٹی کے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جس طرح ہمارے ملک میں رواج ہے کہ انہیں حزب مخالف کے جھنڈے اٹھانے چاہیے تھے، تاکہ بعد میں سارا الزام اپوزیشن کے سر منڈھا جاسکے۔ دوسرے ان لوگوں کو دو ٹیموں میں منقسم کرنا چاہیے تھا جن میں ایک ٹیم حکومت کی موافقت میں نعرے لگاتی تو دوسری ٹیم حکومت کی مخالفت میں۔ اس طرح دنگے کے بعد عموماً تشکیل دیئے جانے والے انکوئری کمیشن کو کنفیوز کرنا آسان ہوجاتا‘‘۔ میر صاحب اپنے گرانقدر تجربات کی روشنی میں کچھ مفید ٹپس مرحمت فرمارہے تھے۔


’’مگر میر صاحب ان امریکیوں کو الیکشن کی ہار کا غصہ نکالنے میں آخر اتنا وقت کیوں لگا؟‘‘ ہم نے بھی میر صاحب کے تجربہ سے مستفید ہونے کی کوشش کی۔

’’بس جناب ہکلے کی گالی والا معاملہ تھا‘‘ میر صاحب کو بھی پہیلیاں بجھوانے میں مزہ آتا ہے۔

’’میر صاحب ذرا کھل کر بتائیے‘‘ ہم نے بھی ’ہکلے کی گالی‘ والی اصطلاح پہلے کبھی نہ سنی تھی۔

’’بھئی ایک بار ایک ہٹے کٹے دنگائی شخص نے ایک ہکلے بے چارے کی بہت بے عزتی کی اور اس کو تگڑی تگڑی گالیوں سے نواز دیا۔ وہاں موجود کھڑے لوگوں نے بیچ بچاؤ کرا دیا تو وہ بے چارا وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ تھوڑی دور پہنچنے پر اس ہکلے نے بھی اس دنگائی شخص کی شان میں ایک موٹی سی گالی دے ڈالی۔ گالی سن کر لوگوں نے اس سے سوال کیا ’’بھائی جب وہ شخص تمہیں گالیاں دے رہا تھا اس وقت تو تم خاموش رہے اب جبکہ تم دور نکل آئے ہو تو اس گالی دینے کا کیا فائدہ؟‘‘

تو اس بے چارے ہکلے نے کہا کہ ’’گالی تو میں نے بھی اسے وہیں اسی وقت دے دی تھی مگر وہ منہ سے نکلی اب ہے‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */