طنز و مزاح: مگرمچھ کے آنسو بہانے کی ضرورت نہیں... سید خرم رضا

کورونا پر رو رو کر ہم کتنا بھی آسمان زمین ایک کرلیں مگر یہ رونا تبھی بند ہوگا جب اس کی دوا سامنے آجائے گی۔ انسان کو چاہیے کہ وہ چاہے کسی بات پر روئے یا نہ روئے لیکن کبھی بھی مگرمچھ کے آنسو نہ بہائے

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

سید خرم رضا

کسی کا غم بانٹنے میں رونے یا یوں کہیے کہ آنسوؤں کا بھی بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنا اظہارغم کرتے وقت نہ روئے تو اس کے بارے میں رائے قائم کرلی جاتی ہے کہ اس کا دل تو پتھر کا ہے، ایسے موقع پر بھی اس کی آنکھ سے ایک آنسو نہیں نکلا اور اگر کسی کی آنکھ سے زیادہ آنسو بہہ جائیں تو لوگ کہنے لگتے ہیں کہ کیسے دکھاوا کر رہا ہے، کتنے ٹسوے بہا رہا ہے یعنی کتنے آنسو بہا رہا ہے۔

زندگی میں اس قدر رونا ہے اور اتنی باتوں پر رونا رویا جانے لگا ہے کہ اب سوال یہ پوچھا جانے لگا ہے کہ رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا! ویسے تو آج کل کورونا کا رونا اتنا زیادہ ہے کہ رونے والوں نے رو رو کر زمین و آسمان ایک کر دئے ہیں۔ کوئی بات آج کل کورونا کا رونا رونے کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ جہاں سماجی دوری کا رونا روتے ہیں تو کچھ لوگ ماسک کے فائدے اور نقصان کا رونا روتے رہتے ہیں۔ ماسک کو لے کر لڑکیوں کا رونا تو کسی حد تک جائز بھی ہے۔ انہوں نے جتنا میک اپ کا سامان خریدا تھا سب اس کمبخت ماسک نے بیکار کر دیا ہے۔ ویسے بھی چہرا اور اس پر ہونٹوں کی مسکراہٹ انسان کا پہلا تعارف ہوتی ہے اور ماسک کا مطلب ہی ان دونوں پردہ، حقیقت تو یہ ہے کہ ماسک نے انسان کے چہرے کی مسکراہٹ سے نہ جانے کب کی دشمنی نکالی ہے۔ خدا کا شکر ہے اس وبا نے ان آنکھوں کو کھلا چھوڑ دیا ہے جو لوگ ایک دوسرے کو دیکھ بھی لیتے ہیں اور آنکھوں کی کشش تعارف کا کام بھی ادا کر دیتی ہیں۔


اپنی قسمت کو رونا، ارے کورونا نہیں بلکہ اپنی قسمت کو کیا رونا! پوری دنیا کا رونا ہی کورونا ہے۔ سماجی دوری، ہاتھ دھونے اور ماسک لگانے تک کا رونا تو رو لیا جاتا مگر اس کورونا نے تو بینک، اناج، جیب اور یہاں تک کہ بچوں کی گلکیں بھی خالی کر دی ہیں۔ صحت اور زندگی رہے گی تو نوکریاں بھی بہت اور پیسے بھی بہت، لیکن جب زندگی اور صحت ہی نہیں ہوگی تو پیسہ اور نوکری کا کیا کریں گے، یہی سوچ کر لوگوں نے اپنی نوکری اور بچوں کی تعلیم کی فکر کیے بغیر جان بچاکر اپنے گاؤں اور گھروں کی جانب اپنی زندگی کی گاڑی موڑ دی۔ کئی سالوں سے جن شہروں کو اپنی زندگی کا سب کچھ بنا لیا تھا اس کو الوداع کہہ کر گاؤں کی جانب چل دیئے۔

ان حالات میں جہاں بہت سے لوگوں نے اپنی زندگی اور صحت کو داؤ پر لگا کر ایمانداری اور سنجیدگی سے لوگوں کی مدد کی، وہیں حکومتوں اور سیاسی رہنماؤں نے مگرمچھ کے آنسو بہائے۔ مگرمچھ کے آنسو بہانے کا محاورہ بہت پرانا ہے اور اس کو منافقت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آج کل تو شائد ہی کوئی ایسا انسان ہو جس نے کبھی نہ کبھی مگرمچھ کے آنسو نہ بہائے ہوں۔ مگرمچھ کے آنسوؤں کو منافقت سے اس لئے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ کہا یہ جاتا ہے کہ مگرمچھ اپنے شکار کی موت پر روتا ہے اور شکار کو کھاتے وقت اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آتی ہیں۔ یعنی شکار بھی کرتا ہے، شکار کھاتا بھی ہے اور روتا بھی۔ دنیا کے ہر کونے اور ہر خطہ میں یہ نسل موجود ہے جو مگرمچھ کے آنسو بہانے میں ماہر ہوتی ہے۔


کورونا پر رو رو کر ہم کتنا بھی آسمان زمین ایک کرلیں مگر یہ رونا تبھی بند ہوگا جب اس کی کوئی دوا سامنے آجائے گی۔ انسان کو چاہیے کہ وہ چاہے کسی بات پر روئے یا نہ روئے لیکن کبھی بھی مگرمچھ کے آنسو نہ بہائے۔ کورونا کا رونا تو ابھی کچھ وقت تک انسانی زندگی کا حصہ ہے اس لئے بجائے یہ کہنے کہ ہم کو گردش حالات پہ رونا آیا، وہ ماسک کے اندر سے ہی مسکراتا رہے اور کورونا کو منھ چڑھاتا رہے۔ ماسک کی وجہ سے منہ چڑھانا کسی کو نظر بھی نہیں آئے گا اور دل کو تھوڑی تسکین بھی ہو جائے گی اور رونا-کورونا سب بند!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */