طنز و مزاح: آدھا تیتر-آدھا بٹیر... تقدیس نقوی

"اگر کافی بیچنے والا پروفیشن پسند نہیں آئے تو وہ اپنے آباؤ اجداد سے رکشہ بھی چلوا سکتا ہے۔" میرصاحب اپنی پارٹی کی داخلی پالیسی پر روشنی ڈالتے ہوئے بولے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تقدیس نقوی

آدھا تیتر۔آدھا بٹیر کی پالیسی بھلے ہی کچھ وقتی فوائد حاصل کرنے کی غرض سے کامیاب نظر آئے، مگر یہ کبھی دیرپا نہیں ہوتی۔ دو متضاد چیزوں کے نصف حصّوں کو یکجا کرنے سے کبھی ایک مکمل چیز نہیں بنائی جاسکتی، بلکہ اس کوشش میں نہ تو تیتر ہاتھ آتا ہے اور نہ ہی بٹیر۔ اس کی تازہ روشن مثال ملک میں جاری سیاسی جوڑ توڑ کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں وقتی فائدہ حاصل کرنے کی حرص و طمع میں لوگ اپنے دیرینہ اختلافات اور آئیڈیالوجی بھلاکر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اک دوسرے کے گلے لگنے میں شرم محسوس نہیں کر رہے۔ گوکہ دیرینہ دشمنی، مخالفت اور اپنی آییڈیا لوجی بھلا دینا اتنا آسان نہیں مگر جیب میں مال کا بڑھتا وزن اک دوسرے سے بغلگیر ہونے میں بہت معاون ہوتا ہے۔

جس سیاست میں آئیڈیا لوجی سے زیادہ 'مال لوجی' کا بول بالا ہو وہاں شرم و لحاظ اور وضعداری کتابی اصطلاحیں بن کر رہ جاتی ہیں۔ حال ہی میں ملک کے دو صوبوں میں اچھی خاصی چلتی حکومتوں کو اسی آدھا تیتر۔آدھا بٹیر پالیسی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ جتنی سفاکی سے سیاسی نیلام گھر میں بولیاں لگائی گئیں اتنی ہی ڈھٹائی سےکھلےعام مارے گئے اس شب خون پر کسی ممکنہ عوامی ردعمل کو کورونا کے ماسک کے پیچھے دبا دیا گیا۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ کل تک گاندھی جی کی اہنسا واد کے پجاری اور گاندھی واد کے نام پرعوام سے ووٹ مانگ کر ودھان سبھا میں پہنچنے والے لوگ اب 'ٹھونک دو، گولی مارو، اور کرنٹ لگاؤ والی وچار دھارا کے ساتھ کس طرح بہنے کے لئے تیار ہوگئے۔


آج کل ہمارے میر صاحب بھی اسی سیاسی بے تکے جوڑ توڑ کی چلتی پھرتی زندہ تصویر بنے پھر رہے ہیں۔ سوٹ بوٹ پہن کر اس پر میچنگ ٹائی لگانے کے ساتھ انھوں نے گلے میں گیروا اسکارف اور سر پرسفید گاندھی ٹوپی سجا رکھی ہے۔ استفسارکرنے پر آخر یہ گاندھی ٹوپی اور گیروے اسکارف کا بھلا کیا جوڑ ہے اور ان دونوں کے ملاپ کا جادو بھلا کب سے سر چڑھ کر بولنے لگا؟ تو انھوں نے تنک کر جواب دیا: "جب سے عوام نے ہر ایرے غیرے کو اپنے سر پر چڑھا رکھا ہے۔"

"یعنی کل تک گاندھی واد میں یقین رکھنے والے نیتاؤں کو اب گاندھی کے مخالفین کے ساتھ بیٹھنے میں کوئی قباحت نہیں ہوگی؟، ہم نے میر صاحب سے دو ٹوک سوال کیا۔

" قباحت تو جب ہوتی جب وہ لوگ گاندھی واد چھوڑتے۔ سب نے اپنی اپنی گاندھی ٹوپی سنبھال کر رکھی ہوئی ہے۔ نہ جانے کب اس کی پھر ضرورت پڑجائے۔ کون جانے کل پھر کسی آدھے بٹیر کی چونچ سے چونچ ملانا پڑ جائے۔" میرصاحب مسکراتے ہوئے گویا ہوئے۔

" اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہ لوگ شروع سے ہی اندر سے گاندھی واد میں یقین نہیں رکھتے تھے۔ صرف گاندھی ٹوپی پہننے سے تو کوئی گاندھی وادی نہیں ہوسکتا۔ "


"آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے یہ لوگ اندر سے بھی اتنے ہی گاندھی وادی ہیں جتنے باہر سے۔" میرصاحب فاتحانہ اندازمیں سمجھانے لگے۔

"وہ کس طرح بھلا ؟" ہم نے حیرت سے میر صاحب سے پوچھا۔

"ہماری کرنسی نوٹ پر جب تک گاندھی جی کی تصویر باقی ہے تب تک گاندھی جی ہمارے اندر رہیں گے کیونکہ انہیں نوٹوں کے مرہون منت تو یہ آدھا تیتر ۔آدھا بٹیر کی پالیسی کامیاب ہوتی ہے۔ اب یہ نوٹوں پر گاندھی جی کی تصویر کوئی باہر لٹکانے کے لئے تھوڑی ہیں سب لوگ ان کو اپنے دل سے ہی لگاکر رکھتے ہیں۔ "میر صاحب نے نئی توجیہ پیش کی۔

" لیکن وہ لوگ جو اپنی کئی نسلوں سے گاندھی واد کے پیروکار رہے ہیں انہیں آپ کے گیروے اسکارف کے نیچے سے جھلکتی گاندھی مخالف وچاردھارا کو قبول کروانے میں اورآپ کو ان کی ٹوپی کے نیچے پوشیدہ راسخ گاندھی واد کو ترک کروانے میں کچھ وقت تو لگے گا۔" ہم نے استفسار کیا۔

بالکل نہیں۔ یہ تیز رفتاری کا زمانہ ہے جہاں وچاردھاراوں کا تبادلہ نوٹوں کے تبادلہ کے ساتھ ہی ہوجاتا ہے۔ ہماری پارٹی میں آنے والوں کو یہ یقین دلانا ہوتا ہے کہ وہ آیندہ کبھی بھی اپنے ماضی کا کہیں ذکرنہیں کریں گے۔ اسی لئے اب حکومت گاندھی واد سے متعلق تاریخ کو بھی تعلیمی نصاب سے نکال رہی ہے۔ اس طرح طلباء کا بوجھ بھی کم ہوگا اور ملک سے گاندھی واد بھی۔ اگر ان میں بدقسمتی سے کوئی خاندانی مجاہد آزادی ہوتا بھی ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے آباؤ اجداد کو بہت مفلس ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً اس کا باپ ریلوے اسٹیشن کے باہر کافی بیچتا تھا وغیرہ۔"


"مگر کافی ہی کیوں وہ چائے کیوں نہیں بیچ سکتا؟ "ہم نے انتہائی تجسس سے پوچھا۔

"دراصل چائے بیچنے والوں کا کوٹا فل ہوچکا ہے۔" میر صاحب نے معذرت بھرے لہجہ میں جواب دیا۔

"اگر کافی بیچنے والا پروفیشن پسند نہیں آئے تو وہ اپنے آباؤ اجداد سے رکشہ بھی چلوا سکتا ہے۔" میرصاحب اپنی پارٹی کی داخلی پالیسی پر روشنی ڈالتے ہوئے بولے۔

"مگر جن کے آباؤ اجداد پائلٹ یا انجینئر رہے ہوں ان کو تو رکشہ چلوانا مشکل ہوجائے گا۔" ہم نے میر صاحب کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے ان سے دریافت کیا۔

"کیوں جناب جب وہ ہماری پارٹی میں داخلہ کی کوشش میں پارٹی کے دفتر کے سیکورٹی گارڈ کے جوتے صاف کرنے کے لئے تیار ہوسکتے ہیں تو وہ اپنے بزرگوں سے رکشہ کیوں نہیں چلواسکتے؟ ساری بزنس ڈیلس ایسے ہی ہوتی ہیں گیو اینڈ ٹیک۔ یہی تو آدھا تیتر۔ آدھا بٹیر اہتمام کی خوبصورتی ہے۔"

"مگران لوگوں میں کچھ تو راج گھرانوں کے چشم و چراغ بھی ہیں ان کے آباؤ اجداد کے تبدیلی پیشہ کی بات بھلا کون ہضم کرسکتا ہے۔" ہم نے میرصاحب کو کریدتے ہوئے پوچھا۔

"اسی لئے توان لوگوں کو پارٹی کے باہر لائن میں کچھ عرصہ سے کھڑا رکھا ہے تاکہ ان کا راج گھرانے والا کلف کچھ اتر جائے۔"


" مگرعالمی سطح پرآپ کی حکومت کے بیانات اور اعلانات میں گاندھی جی کو ابھی بھی نیشنل ہیرو کے طور پر رکھا جاتا ہے جبکہ داخلی طور سے ان کے ذکر سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کیا آدھا تیتر۔آدھا بٹیر پالیسی کا حصہ ہے؟" ہم نے بظاہر مشکل سوال کیا۔

"عالمی سطح پر ہماری حکومت سے ملک کی جدوجہد آزادی کے متعلق اگرکوئی سوال پوچھا جاتا ہے تو اس وقت گاندھی جی ہی ہمارے بڑے کام آتے ہیں۔ باہر والوں کو متاثرکرنے کے لئے کچھ تزئین کرنا پڑتی ہے۔ ہماری یہ گاندھی ٹوپی بھی اسی تزئین کا حصہ ہے۔" یہ کہہ کر میر صاحب تو اپنی ٹوپی سنبھالتے ہوئے چلتے بنے اور ہمیں ان کی ٹوپی اور ٹائی دیکھ کر اک بڑے وضعدار زمیندار صاحب کا واقعہ یاد آگیا۔

اک دن جب زمیندار صاحب کے اک دوست ان سے ملنے ان کے دولت خانہ پر پہنچے اور دستک دی تو ملازم نے دروازہ کھولا۔ دیکھا موصوف اپنے طویل وعریض لان میں نیکر اور بنیان پہنے ہوئے چہل قدمی کر رہے ہیں۔ انھوں نے جب قریب آکر تپاک سے اپنے دوست کا استقبال کیا تو ان کے دوست نے غور کیا کہ زمیندارصاحب نیکر اور بنیان کے ساتھ اک عدد ٹائی بھی گلےمیں باندھے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھ کر ان کے دوست ابھی حیرت میں ڈوبے ہوئے زمیندار صاحب سے اس عجیب وغریب امتزاج کے متعلق دریافت کرنے کی ہمت کرہی رہے تھے زمیندار صاحب نے دوست کی حیرت کو بھانپ لیا اور گویا ہوئے:


"آپ تو جانتے ہیں اس موسم میں چہل قدمی کا مزہ تو نیکر اور بنیان میں ہی خوب آتا ہے۔"

"مگر بنیان پریہ ٹائی؟" دوست نے جھینپتے ہوئے آخرکار پوچھ ہی لیا۔

"جناب کیا معلوم کسی وقت کوئی مہمان بھی تو آسکتا ہے۔" زمیندار صاحب نے اپنی ٹائی کو ہاتھ لگاتے ہوئے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔