گھبرانا نہیں- بی پازیٹو… تقدیس نقوی

ایک صاحب نے تو اپنی کار کے آگے پیچھے لکھوا رکھا ہے کہ ’میں کورونا پازیٹو ہوں‘ جس کو پڑھ کر اب نہ کوئی پولیس والا ان کی کار کو روکتا ہے اور نہ ٹول والا۔ پورے شہر میں بغیر کسی رکاوٹ کے دندناتے پھرتے ہیں

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تقدیس نقوی

ہم نے میرصاحب جیسا پازیٹو آدمی آج تک نہیں دیکھا۔ ہر بات کے آگے پیچھے وہ یہی کہتے نظر آتے ہیں "گھبرانا نہیں۔ بی پازیٹو"۔ پچھلے دنوں ان کے اک واقف کار کورونا پازیٹو قرار دیئے گئے مگر پورے شہر میں کوئی اسپتال انہیں ایک بیڈ دینے کو تیار نہ ہوا۔ میر صاحب سے مدد مانگنے پرانہیں اک ہی جواب ملا: " گھبرانا نہیں۔ بی پازیٹو" وہ بے چارے اسپتال کے باہر دم توڑ گئے اور می رصاحب یہی کہتے رہے: " گھبرانا نہیں بی پازیٹو"

میرصاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ بڑے مشکل وقت میں بھی کوئی نہ کوئی مثبت پہلو ڈھونڈ نکال لیتے ہیں۔ مثلاً اگر وہ کسی کو دریا میں ڈوبتا ہوا بھی دیکھیں گے تو بجائے اس کو مدد فراہم کرنے کے یہی کہتے نظر آئیں گے: " گھبرانا نہیں۔ بی پازیٹو"۔ اور اگر کوئی ان سے سوال کرلے۔ "جناب ڈوبتے کو سہارا دینے کے بجائے آپ نری تسلی سے کام چلا رہے ہیں؟ "۔ تو ان کا جواب ہوگا۔ "اس شدید گرمی میں دھوپ سے تپتی ہوئی زمین پر مرنے سے تو اچھا ہے کہ آدمی پانی میں ڈوب کر مرجانے۔ نہ گرمی کا جھنجھٹ نہ کریا کرم کا۔ دوسرے ملکوں میں تو کھلے میدانوں میں لاکھوں کی تعدا میں لوگ مر رہے ہیں۔ ہمارا ملک آج بھی کئی ملکوں سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ کم از کم یہاں آسانی سے ڈوبنے کی سہولت تو ہے۔ 'آتم نربھرتا' کی اس سے اچھی مثال پوری دنیا میں کہیں نہیں ملے گی"


اب کل کی ہی بات لے لیجیے۔ پٹرول-ڈیزل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کی خبر سن کر پورے ملک میں کہرام مچ گیا۔ ویسے میڈیا کے مرہون منت اس کہرام کی خبر کسی کو نہیں ہوئی۔ مگر میر صاحب کے لبوں پر وہی مسکراہٹ رقصاں تھی جو کچھ دن پہلے پیاز اور ٹماٹر کی قیمتوں میں اضافہ کی خبر سن کر آئی تھی۔

" سمجھ میں نہیں آتا ہماری جتنا آخر چاہتی کیا ہے۔ کب سے رٹ لگا رکھی تھی ملک کی معیشیت کا حال بہت خراب ہے کیونکہ جی ڈی پی روز بروز گرتی جا رہی ہے۔ اب جبکہ جی ڈی پی بڑھ رہی ہے تب بھی لوگ واویلا مچا رہے ہیں۔ یہ سب اپوزیشن پارٹی کی کارستانی ہے اور کچھ نہیں"۔ میرصاحب منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح تقریر کرنے لگے۔

" مگر میر صاحب آپ سے کس نے کہہ دیا ملک کی جی ڈی پی بڑھ رہی ہے؟ "کسی نے حیران ہوکر ان سے پوچھا۔

" کیوں گزشتہ کئی ہفتوں سے کیا ہماری حکومت نے پٹرول-ڈیزل اور گیس یعنی جی ڈی پی کی قیمتیں اک ایسے وقت میں نہیں بڑھائیں جب عوام کی حالت پہلے ہی سے خستہ ہے۔ حکومت نے یہ قدم صرف اس لئے اٹھایا ہے کہ بھوکے عوام کے کانوں میں جب جی ڈی پی کے بڑھنے کی خبر پہنچے گی تو وہ اپنی بھوک بھول جائیں گے اور ہماری حکومت سر اٹھاکر کہہ سکے گی کہ ہمارے ملک میں بھی جی ڈی پی بڑھ رہی ہے۔ عام آدمی کو اس وقت معاشیات تھوڑی پڑھائی جائے گی۔ میڈیا پہلے ہی سے اس بات کا خیال رکھ رہی ہے کہ عوام کسی بھی مسئلہ کی حقیقت نہ جان سکیں۔" میر صاحب حسب عادت حکومتی پالیسی کا دفاع کر رہے تھے۔


باوجود اتنی مشاکل اور چیلنجیز کے میرصاحب ہرمعاملہ میں اتنے زیادہ پازیٹو نظر آتے ہیں جب وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہمیشہ پازیٹو ہونا بھی ٹھیک نہیں۔ کبھی کبھار تو کسی کے کورونا پازیٹو ہونے کی خبر سن کر بھی کہنے لگتے ہیں کہ "گھبرانا نہیں بی پازیٹو"۔ اور وہ پریشان حال بے چارہ گھبرا کر ان سے پوچھتا ہے: " اب اس سے زیادہ اور کون سا پازیٹو ہونا باقی رہ گیا ہے؟"

میر صاحب کے پازیٹو ہونے کی انتہا تو اس وقت ہوگئی جب انھوں نے ملک میں کرونا کی وباء کے روز بروز بڑھتے گراف کو ہی پازیٹو بتا ڈالا، کہنے لگے : " جناب آپ یہ کیوں دیکھ رہے ہیں کہ کورونا سے متاثر ہونے والے لوگوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ آپ یہ کیوں نہیں دیکھتے ملک میں اب بھی کروڑوں لوگ کورونا سے متاثر ہونا باقی ہیں اور یہ سب حکومت کی بہترین حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ جب تک یہ باقی لوگ کورونا پازیٹو ہوں گے، دوسرے متاثرہ لوگ نیگٹو ہوچکے ہوں گے زندہ یا مردہ"

آج کل جب میر صاحب کسی سے یہ سوال کرتے ہیں: 'کیا آپ پازیٹو ہیں؟' تو یہ سن کر ہرشخص وحشت زدہ سا ہوجاتا ہے اور جواب دینے سے کترانے کے لئے ماسک میں منہ چھپاکر اپنا بخار چیک کرنے لگتا ہے۔ کیونکہ اس پازیٹو سوال کے معنی نیگٹو لئے جاتے ہیں۔ پہلے نیگٹو ہونا ایک بڑا عیب تصور کیا جاتا تھا مگر آج کل 'نیگٹو' کا یہ مختصر سا لفظ کتنے ہی دل شکستہ اور پریشان حال لوگوں کے چہرہ پر بشاشت اور اطمینان لانے کا سبب بن رہا ہے جبکہ 'پازیٹو' جو کبھی انسانی ترقی کا محرک مانا جاتا تھا اب موت کا پروانہ بن چکا ہے۔ چند دن پہلے تک لاک ڈاون کا آنکھ بند کرکے دفاع کرنے والے میر صاحب جیسے لوگ اب 'ان لوک' کرنے کا دفاع کرتے ہوئے عوام کو "گھبرانا نہیں- بی پازیٹو" کی گولی دیتے پھر رہے ہیں۔ جس کا اثر یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ لوگ گھروں سے اس طرح باہر نکل رہے ہیں گویا بی پازیٹو کہنے سے وہ اب کبھی کورونا پازیٹو نہیں ہوں گے۔


حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک ہی کال ' گھبرانا نہیں بی پازیٹو' پر سارا ملک گھروں سے نکل کر سڑکوں پر نکل آیا۔ ہم نے از راہ تجسس ایک سرکاری عہدیدار سے پوچھ ہی لیا۔ آخر یہ سب لوگ کس طرح اچانک گھروں سے باہر نکل آئے تو وہ ہمارے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہمیں سمجھانے لگے: " کیوں جناب جب ہماری قوم ایک صدا پر چشم زدن میں چون و چرا کیے بغیر 'جان ہے تو جہان ہے' نعرہ کے جواب میں خود کو گھروں میں قید کرسکتی ہے تو کیا اس اک صدا 'جہان ہے تو جان ہے' کے نعرہ کا جواب دینے کے لئے گھروں سے نہیں نکل سکتی۔ اسے کہتے ہیں سچی عوامی اطاعت شعاری اور دیش بھکتی۔ جب دیش کو جان کی ضرورت تھی تو عوام نے جان بچائی اور اب جہان کی ضرورت ہے تو جان کی پرواہ کیے بغیر جہان بچانے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ جب حکومت نے کہہ دیا کہ گھبرانا نہیں تو پھر کیا گھبرانا "

اک صوبہ کے مکھیہ منتری جی نے تو اپنے بھاشن کے ساتھ اک ویڈیو بھی چلائی جسے دیکھ کرفرط جذبات سے ہمارے آنسو نکل آئے۔ دل مطمئن تھا مکھیہ منتری جی عوام کو میڈیکل ایڈ دینے کے بجائے دلاسہ دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے "مرجانا، مگر گھبرانا نہیں "مکھیہ منتری کا یہ بھاشن سن کر کچھ کورونا پازیٹوغریب لوگ جنھیں اسپتال جانے کے بجائے اپنے گھروں میں رہنے کی صلاح دی جارہی تھی اپنا بستر بوریا اٹھا کر پبلک ٹوئلٹ کے قریب اپنا بستر جماتے دیکھے گئے۔ جب ان سے پوچھا گیا وہ اپنی چھونپڑپٹی چھوڑ کر اس پبلک ٹوئلٹ کے قریب کیوں آگئے تو ان کا جواب تھا :


"سرکار نے ویڈیو کے ذریعہ تاکید کی ہے کہ کورونا لگنے پر کسی اسپتال نہیں جانا ہے۔ گھر پر ہی رہ کر اپنا دھیان رکھنا ہے۔ بس اتنا خیال رہے کہ ٹوئلٹ آپ کے کمرے کے نزدیک ہو۔ اب ہماری جھونپڑی میں تو ایسا کوئی کمرہ نہیں ہے جس کے ساتھ ٹوئلٹ ہو، تو ہم نے سوچا ٹوئلٹ کے ساتھ اپنا گھر کر لیتے ہیں۔ اس سے زیادہ تو ہم پازیٹو نہیں ہوسکتے"

کچھ لوگ تونیگٹو ہونے کے بعد بھی پازیٹو رہنا پسند کر رہے ہیں۔ اک صاحب نے تو اپنی کار کے آگے پیچھے لکھوا رکھا ہے: " میں کورونا پازیٹو ہوں" جس کو پڑھ کر اب نہ کوئی پولیس والا ان کی کار کو روکتا ہے اور نہ ٹول والا۔ وہ پورے شہر میں بغیر کسی رکاوٹ کے دندناتے پھرتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں ہمیشہ پازیٹو رہنا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */