سالِ نو 2023: بدلاؤ کے لمحہ کا انتظار... (اشوک پانڈے کا مضمون)

اس سال ہوائی اڈے بھی فروخت ہوئے، ریلوے اسٹیشن بھی، لیکن بلیٹ ٹرین کا انتظار اس طرف عوام کی توجہ مبذول کہاں ہونے دیتی ہے؟

<div class="paragraphs"><p>سال نو 2023، تصویر&nbsp;غGettyimages</p></div>

سال نو 2023، تصویرغGettyimages

user

قومی آوازبیورو

کووڈ جیسی خوفناک وبا سے نکل کر 2022 کا جو سفر ہوا تھا، وہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کو لے کر جاری کووڈ ایڈوائزری کی خبر پر ختم ہوئی ہے۔ کووڈ نے بہانہ دیا تو حکومت نے شہریوں کی سہولیات چھیننے کا جو عمل شروع کیا، سال گزرتے گزرتے صاف کر دیا کہ ریلوے تک میں سینئر شہریوں تک کو دی جانے والی سہولیات اور چھوٹ بحال نہیں ہوں گی۔ سال جاتے جاتے ’مدر ڈیری‘ نے ایک بار پھر قیمت بڑھا کر ثابت کر دیا کہ نئے نظام میں ترقی کا مطلب مہنگائی ہے اور 80 کروڑ لوگوں کو مفت راشن تو دیا جا سکتا ہے لیکن روزگار کا تحفہ انتخابی تشہیر سے آگے ملنا ناممکن ہے۔ اب یہ سوال کون پوچھے کہ 80 کروڑ لوگ اس حال میں کیوں ہیں کہ انھیں اناج کے لیے جھولی پھیلانی پڑے؟

اس سال ہوائی اڈے بھی فروخت ہوئے، ریلوے اسٹیشن بھی، لیکن بلیٹ ٹرین کا انتظار، اس طرف عوام کی توجہ مبذول کہاں ہونے دیتی ہے؟ جانے ہی لگے تو گاندھی ہیں، نہرو ہیں، سبھاش ہیں، پٹیل ہیں، واٹس ایپ ہے۔ لوگ بالآخر بہل ہی جاتے ہیں۔ آخر اتنے سارے چینل بھی تو ہیں بہلانے کے لیے جن میں ہندو-مسلم اتنی بار بجتا ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری وغیرہ کے لیے کوئی امکان بچ ہی نہیں جاتا۔ ہاں، اس سال ایسی اول جلول باتیں کرنے والے آخری چینل این ڈی ٹی وی کو بھی اڈانی صاحب نے خرید لیا تو اب آئندہ سال مزید سریلا ہونے کا امکان ہے۔


لیکن اس سُر کو بے سُرا کر دیا ہماچل نے اور اس کے بھی پہلے راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے۔ سوال پھر بھی اُبھر کے آتے ہیں۔ حالانکہ انھیں دبانے کے لیے ایک نہیں، کئی مندر ہیں اور فی الحال اقتدار بیچو مہم میں مصروف ہیں۔ بکھرا ہوا اپوزیشن اور نفرت کے نشے میں مست عوام اسے پراعتماد کرتی ہے لیکن کسی نے کہا ہے کہ ہزاروں سالوں میں کچھ نہیں بدلتا اور راتوں رات سب بدل جاتا ہے، تو بدلاؤ کے اس لمحہ کا انتظار ہی اس سال سے اگلے سال تک جائے گا، اس سمجھ کے ساتھ کہ اپنے آپ تو کچھ نہیں بدلتا، اس کے لیے سب کو اپنا کردار نبھانا پڑتا ہے۔

(مضمون نگار اشوک پانڈے تاریخ داں ہیں اور کشمیر و ساورکر پر لکھی کتابوں کے مصنف بھی ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔