ان کو صحافی کہتے ہوئے شرم آتی ہے ... سہیل انجم

ملک میں جب بھی کوئی اہم واقعہ پیش آتا ہے تو صحافیوں کا یہ طبقہ بے حیائی و بے غیرتی کی تمام حدیں عبور کر جاتا ہے اور بلا وجہ اور بلا ضرورت مسلمانوں اور اپوزیشن لیڈروں کو گھسیٹ لیتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

ہندوستان میں صحافیوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو واقعی صحافت کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو صحافت کے نام پر جہالت پھیلاتے ہیں۔ دوسری قسم کے صحافیوں کی تعداد اب بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اور ایسے صحافی الیکٹرانک میڈیا میں زیادہ ہیں۔ ان کو نہ تو اپنے پیشے کے وقار کا کچھ لحاظ ہے اور نہ ہی اپنی عزت کا کچھ پاس۔ وہ برسراقتدار طبقے کی خوشامد اور مدح سرائی اور اپوزیشن پر بیجا تنقید اور نکتہ چینی کو ہی حقیقی صحافت سمجھے ہوئے ہیں۔

ملک میں جب بھی کوئی اہم واقعہ پیش آتا ہے تو صحافیوں کا یہ طبقہ بے حیائی و بے غیرتی کی تمام حدیں عبور کر جاتا ہے اور بلا وجہ اور بلا ضرورت مسلمانوں اور اپوزیشن لیڈروں کو گھسیٹ لیتا ہے۔ یہ لوگ جن نیوز چینلوں میں ہیں یا جن کے ایڈیٹر ہیں ان پر روزانہ چیخم دھاڑ لگی رہتی ہے اور کبھی مسلمانوں کو تو کبھی حکومت مخالف طبقے کو مغلظات سنائی جاتی ہیں۔ ان پر جو مباحثے ہوتے ہیں وہ اتنے گھٹیا اور سطحی ہوتے ہیں کہ کوئی باعزت شخص ان کو دیکھ نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج عوام کے بہت بڑے طبقے نے نیوز چینلوں کو دیکھنا بند کر دیا ہے۔


ابھی جب تبلیغی جماعت کا معاملہ سامنے آیا تو یہ سارے نام نہاد صحافی مادرزاد برہنہ ہو گئے۔ انھوں نے تبلیغی جماعت کی آڑ میں مسلمانوں کو ہندوستان میں کرونا جہاد چھیڑنے کا مجرم گرداننا شروع کر دیا۔ یہاں تک الزام عاید کیا گیا کہ نظام الدین کے مرکز میں ہزاروں مسلمان اسی لیے جمع ہوئے تھے کہ وہ ہندوستان میں کرونا پھیلا سکیں۔ ذرا سوچیے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو خود کرونا ہو گیا ہے۔ یعنی ان کی زندگی خود داؤ پر لگی ہوئی ہے اور ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ کرونا پھیلانے کے لیے یکجا ہوئے تھے۔

ان صحافیوں کی نقالی میں بی جے پی کے کئی لیڈر بھی مسلمانوں پر کرونا جہاد چھیڑنے کا الزام لگانے لگے۔ ان کی دیکھا دیکھی بہت سے ان لوگوں نے بھی جو صحافی تو نہیں ہیں البتہ ٹویٹر پر اپنے خیالات پوسٹ کرکے خود کو دانشور سمجھتے ہیں، مسلمانوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ اس قطار میں عرب ملکوں میں رہنے والے کئی ہندو بھی شامل ہو گئے۔ انھوں نے بھی اسلاموفوبیا کی مہم شروع کر دی۔


جس پر عرب ممالک سے شدید رد عمل سامنے آیا۔ اسلامی تعاون تنظیم، او آئی سی، نے اس رجحان کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور ہندوتوا برگیڈ کی اس مہم کے خلاف حکومت ہند کو متنبہ کیا اور یہاں تک کہ ان کو گاندھی جی کا پاٹھ پڑھایا۔ اس شدید رد عمل کی وجہ سے وزیر اعظم نریند رمودی کو ایک ٹوئٹ کرکے یہ کہنا پڑا کہ کرونا وائرس حملہ کرنے سے قبل مذہب، ذات، برادی، رنگ، نسل اور زبان نہیں دیکھتا۔ لیکن یہ ایک سادہ سا بیان ہے۔ شاید وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ حالانکہ ان کو کھل کر کہنا چاہیے کہ کرونا کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام کرنا بند کیجیے۔

ان کے بیان کے بعد مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے یہ کہہ کر مسلمانوں کو اور پوری دنیا کو ایک مژدہ سنانے کی کوشش کی کہ ہندوستان مسلمانوں کے لیے جنت ہے۔ واہ نقوی جی یہ وہی مسلمانوں کی جنت ہے جہاں ابھی فروری ماہ میں شمال مشرقی دہلی میں مسلم مخالف فساد کروا کر متعدد افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے اور اسی جنت میں مسلمانوں کی اندھادھند گرفتاری بھی ہو رہی ہے۔ اس جنت کی اور بھی بہت سی خوبیاں ہیں جن کو گنانے کا یہ موقع نہیں ہے۔


بہر حال بات ہو رہی تھی ایسے صحافیوں کی جو صحافی تو نہیں ہیں ہاں ایک سیاسی جماعت کے ترجمان ضرور ہیں۔ انھیں میں ایک صحافی کا نام ارنب گوسوامی ہے۔ وہ پہلے این ڈی ٹی وی میں تھے۔ اس کے بعد ٹائمس ناؤ میں تھے اور اب انھوں نے اپنا انگریزی چینل کھول لیا ہے جس کا نام ریپبلک ہے۔ اس کا ایک ہندی چینل بھی ہے آر بھارت کے نام سے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ دونوں چینل ایک بی جے پی ایم پی کے ہیں۔ ارنب اپنی فطرت کے مطابق حکومت کی خوشامد اور اپوزیشن بالخصوص کانگریس کو گالیاں دینے میں پیش پیش رہتے ہیں۔

ابھی جب پالگھر میں دو سادھوؤں کی موب لنچنگ ہوئی تو پہلے اس قبیل کے صحافیوں نے اس کے ڈانڈے مسلمانوں سے ملانے کی کوشش کی اور پھر عیسائیوں سے۔ بی جے پی بھی اس کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرنے لگی۔ جب معاملہ کافی آگے بڑھ گیا تو مہاراشٹر کے وزیر داخلہ کو سامنے آنا پڑا اور واضح طور پر یہ کہنا پڑا کہ جن لوگوں نے ان دونوں سادھوؤں کو مارا ہے وہ مسلمان نہیں ہیں۔ انھوں نے اس معاملے میں گرفتار 101 افراد کی فہرست جاری کر دی اور کہا کہ یہ سارے کے سارے ہندو ہیں۔


اس معاملے میں ارنب نے اپنی فطرت کے مطابق کانگریس صدر سونیا گاندھی کو ہتک آمیز انداز میں نشانہ بنایا اور یہاں تک کہا کہ انھوں نے ہی ان دونوں سادھوؤں کا قتل کرایا ہے۔ وہ چیخ چیخ کر یہ الزام عاید کرتے رہے۔ کانگریس نے ان چینلوں پر اپنے نمائندے بھیجنے بند کر دیئے ہیں۔ اس لیے کوئی بڑا لیڈر ارنب کے الزام کو غلط ثابت کرنے یا ان کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے موجود نہیں تھا۔ ایک آچاریہ موجود تھے لیکن وہ کچھ بول نہیں پا رہے تھے۔

ان کی اس حرکت کے خلاف کانگریس کارکنوں کی جانب سے مختلف شہروں میں ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ ادھر ارنب نے ایک ویڈیو جاری کرکے لوگوں کو یہ بتایا کہ ان پر حملہ ہوا ہے اور حملہ آور یوتھ کانگریس کے لوگ تھے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اپنے خلاف ایف آئی آر درج ہونے اور گرفتاری کی تلوار لٹک جانے سے ارنب پر خوف و دہشت طاری ہو گئی اور بھاگے بھاگے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔


سپریم کورٹ نے بھی جو کہ اہم معاملے میں فوری سماعت نہیں کرتا اس معاملے پر فوراً سماعت کی اور ان کے خلاف کارروائی پر روک لگا دی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میڈیا کے بعض اداروں، حکومت اور عدلیہ کے مابین کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔ جبھی تو کرونا کی وجہ سے لاک ڈاون میں جبکہ ہر کام بند ہے سپریم کورٹ نے فوراً سماعت کی اور ارنب کو راحت دے دی۔

لیکن ارنب یہ نہ سمجھیں کہ انھیں واقعی راحت مل گئی ہے۔ کانگریس کارکن ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ وہ ان کو جیل میں ڈلوا کر ہی دم لیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 Apr 2020, 9:40 PM
/* */