’دارالقضاء‘ پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ میں شگاف!

بورڈ کے کئی اراکین چاہتے تھے کہ ’دارالقضاء‘ معاملے میں کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے کیونکہ اس سے فرقہ پرست طاقتوں کو تقویت ملے گی، لیکن اکثریت نے ان کی بات نہیں سنی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

اس وقت ’دارالقضاء‘ کا معاملہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور میڈیا دونوں جگہ گرمایا ہوا ہے۔ ایک طرف میڈیا نے دارالقضاء کی حقیقت پر بحث شروع کر رکھی ہے تو دوسری طرف بورڈ اراکین کے درمیان اس سلسلے میں اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ حالانکہ 15 جولائی کو ہوئی مسلم پرسنل لاء بورڈ کی میٹنگ میں ہم جنس پرستی اور بابری مسجد وغیرہ کا معاملہ بھی زیر غور آیا ۔لیکن دارالقضاء میڈیا میں ’ہاٹ ٹاپک‘ بنا ہوا ہے۔ اندرونی ذرائع سے ملی خبروں کے مطابق بورڈ کے کئی سینئر اراکین اس میٹنگ میں اس لیے شامل نہیں ہوئے کیونکہ وہ اس وقت دارالقضا کے معاملے پر غور کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی، نائب صدر مولانا کلب صادق، محمد ادیب، مولانا ارشد مدنی اور مولانا محمود مدنی وغیرہ اتوار کی میٹنگ میں شامل نہیں ہوئے اور ایک سینئر رکن نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ ان میں سے کئی اس وجہ سے شریک نہیں ہوئے کیونکہ موجودہ سیاسی حالات میں’دارالقضاء‘ جیسے معاملے کو اٹھانا مناسب نہیں سمجھتے تھے۔

بورڈ کے ایک سینئر رکن نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ کئی بورڈ اراکین چاہتے تھے کہ اس معاملے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے کیونکہ سیاسی طور پر اس کا غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی، لیکن ان کی باتوں پر توجہ نہیں دی گئی۔ انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ دارالقضاء پہلے سے ہی کئی ریاستوں میں موجود ہیں پھر باضابطہ نئے دارالقضاء کھولنے کے اعلان سے فرقہ پرست طاقتوں کو یہ کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ ’ملک میں عدالت موجود ہے تو مسلمانوں کو شرعی عدالت کی کیا ضرورت!‘ سینئر رکن کا کہنا ہے کہ یہ سب چیزیں خاموشی سے بھی کی جا سکتی تھیں، اور جب بورڈ میٹنگ سے پہلے ہی ’دارالقضاء‘ پر ہنگامہ شروع ہو گیا تھا تو ملک میں مزید 10 دارالقضاء کھولنے کا اعلان کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں۔

قابل ذکر ہے کہ دارالقضاء معاملے پر اتوار کی میٹنگ کے دوران بھی کچھ اراکین نے یہ کہا کہ ’’ اس کے اعلان کی ابھی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے یہ ایک سیاسی بحث کا موضوع بن جائے گا...۔‘‘ لیکن اکثریت اعلان کرنے کے حق میں نظر آئی اور پھر بعد میں پریس کانفرنس کے دوران باضابطہ 10 دارالقضاء کھولے جانے کا اعلان کیا گیا۔ یہ اعلان ہونا تھا کہ میڈیا، خصوصاً ہندی میڈیا میں ڈیبیٹ شروع ہو گیا۔ حالانکہ یہ ڈیبیٹ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سینئر رکن ظفریاب جیلانی کے ذریعہ بورڈ میٹنگ سے پہلے ہی ملک کے ہر ضلع میں دارالقضاء قائم کرنے پر غور کیے جانے کی بات کہنے کے بعد شروع ہو چکی تھی، لیکن میٹنگ کے بعد ہوئی پریس کانفرنس نے اسے مزید طول دے دیا۔

جب اس سلسلے میں بورڈ کے سینئر رکن کمال فاروقی سے ’قومی آواز‘ نے سوال کیا کہ وہ 10 دارالقضاء کھولے جانے کے اعلان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، تو انھوں نے کہا کہ ’’ملک میں پہلے سے ہی کئی دارالقضاء موجود ہیں اس لیے نئے دارالقضاء کھولے جانے کو بلاوجہ طول دیا جا رہا ہے۔ 10 مقامات پر دارالقضاء کھولنے کا اعلان اس لیے کیا گیا کیونکہ وہاں اس کی ضرورت محسوس کی گئی۔‘‘ کمال فاروقی میڈیا سے اس بات پر برہم نظر آئے کہ 10 دارالقضاء میں سے پہلا گجرات میں کھولنے جانے کی تشہیر کی جا رہی ہے جب کہ اس بات میں کوئی سچائی نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’جس جگہ پہلے ضرورت ہوگی وہاں پہلے کھولا جائے گا۔‘‘ ساتھ ہی کمال فاروقی نے یہ بھی کہا کہ ’’اگر گجرات میں دارالقضاء کھل رہا ہے تو اس میں غلط کیا ہے۔ وہاں کوئی انتخاب تو نہیں ہو رہے کہ کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچنے جیسی بات ہو۔‘‘

’قومی آواز‘ سے بات چیت کے دوران کمال فاروقی کہتے ہیں کہ ’’پتہ نہیں میڈیا دارالقضاء سے متعلق عجیب عجیب سی باتیں کیوں کر رہی ہے۔ یہ کسی بھی طرح سے غیر قانونی نہیں ہے اس لیے میڈیا کو چاہیے کہ وہ اسے غلط طریقے سے پیش نہ کرے۔‘‘ انھوں نے میڈیا سے اس بات پر بھی خفگی ظاہر کی کہ حلالہ جیسے معاملے پر بورڈ کی میٹنگ میں کوئی تبادلہ خیال نہیں ہوا پھر بھی اس تعلق سے خبریں چلائی جا رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پورے ملک میں شرعی عدالتیں قائم کرنے کا منصوبہ

دارالقضاء پر جاری اس ہنگامہ کے درمیان مسلم دانشوروں میں ایک بے چینی کی کیفیت دیکھی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین اسکول کے پرنسپل ڈاکٹر معروف خان مسلم پرسنل لاء بورڈ کے دارالقضاء سے متعلق کیے گئے اعلان کو ’غیر دانشمندانہ قدم‘ سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’بورڈ کے موجودہ اقدام سے فرقہ پرست قوتوں کو تقویت مل رہی ہے اور عوام میں غلط پیغام جا رہا ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے بورڈ کو چاہیے تھا کہ اس معاملے کو نظر انداز کرتا۔‘‘ چونکہ عام انتخابات قریب ہیں، اس لیے بورڈ کے ناقدین اس قدم کو بی جے پی اور آر ایس ایس کو فائدہ پہنچانے والا قدم قرار دے رہے ہیں۔ بلکہ باتیں تو یہاں تک اٹھنے لگی ہیں کہ بورڈ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ملت نہیں بلکہ سَنگھ کے لیے کام کر رہا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ بورڈ کے سینئر رکن اور وکیل ظفریاب جیلانی کو میٹنگ کے بعد پریس کانفرنس میں باضابطہ یہ صفائی دینی پڑی کہ’’بورڈ آر ایس ایس کے لیے نہیں ملت کے لیے کام کرتا ہے۔‘‘

لیکن اس فیصلے سے نہ صرف مسلم پرسنل لاء بورڈ میں شگاف پیدا ہو گیا ہے بلکہ اب اس کی افادیت پر بھی بحث شروع ہو گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Jul 2018, 5:02 PM