پورے ملک میں شرعی عدالتیں قائم کرنے کا منصوبہ

مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن ظفریاب جیلانی کا کہنا ہے کہ بورڈ کی آئندہ میٹنگ میں ملک کے ہر اضلاع میں دارالقضاء قائم کرنے پر غور کیا جائے گا تاکہ مسلمانوں کو اپنے مسائل کا حل بہ آسانی حاصل ہو سکے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

مسلمانوں کے مسائل کا اسلامی شریعت کے مطابق حل نکالنے اور طلاق، وراثت و دیگر معاملوں پر سماعت کے لیے پورے ملک میں دارالقضا یعنی شرعی عدالت قائم کرنے کا منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کام کرنا شروع کر دیا ہے اور آئندہ 15 جولائی کو دہلی میں ہونے والی میٹنگ میں اس پر غور و خوض کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق بورڈ ملک کے سبھی اضلاع میں دارالقضاء کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

بورڈ کے سینئر رکن ظفریاب جیلانی نے 15 جولائی کو ہونے والی میٹنگ سے متعلق میڈیا کو بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ملک کے ہر ضلع میں دارالقضاء یعنی شرعی عدالت کھولنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلم سماج اپنے مسائل کو دیگر عدالتوں میں لے جانے کی جگہ یہیں پر حل کر لیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’دارالقضاء کے ذریعہ اسلامی روشنی میں مسائل کا حل نکالنے سے لوگوں کا اعتماد شریعت پر بڑھے گا۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
فتح پوری مسجد کے شاہی امام مفتی محمد مکرم

فتح پوری مسجد کے شاہی امام مفتی محمد مکرم نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بورڈ کے ذریعہ ملک کے ہر اضلاع میں دارالقضاء قائم کرنے کے منصوبہ کو ایک اچھا قدم قرار دیا اور کہا کہ ’’اس وقت دارالقضاء ریاستوں کی راجدھانیوں میں اور بڑے شہروں میں ہیں جس کی وجہ سے دور دراز گاؤوں کے لوگ اس سے کم ہی استفادہ کر پاتے ہیں۔ اگر چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں بھی دارالقضاء قائم کیا جاتا ہے تو مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل بہ آسانی حل ہو سکتے ہیں۔‘‘ مفتی مکرم کہتے ہیں کہ ’’دارالقضاء اس لحاظ سے مسلمانوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہاں وکیلوں اور اسٹامپ پیپر جیسی چیزوں پر کوئی خرچ نہیں ہوتا اور درخواست دے کر عوام اپنی ہر بات بہ آسانی رکھ سکتے ہیں۔ دارالقضاء میں بہت ساری آسانیاں ہیں جو عدالتوں میں نہیں ہوتیں۔ چھوٹے موٹے ثبوت بھی دارالقضا میں قابل قبول ہوتے ہیں۔‘‘

مفتی مکرم نے بڑی تعداد میں دارالقضاء قائم کرنےکی کوششوں کو خوش آئند قرار دینے کے ساتھ ساتھ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو کئی مشورے بھی دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’دارالقضاء کو عوام کے لیے مفید بنانے کے لیے سب سے ضروری ہے کہ اس کا معیار قائم کیا جائے۔ کسی بھی طرح کی جانبداری سے لوگوں کا بھروسہ ختم کر سکتی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’کئی بار ایسا مشاہدے میں آیا ہے کہ دارالقضاء میں معاملے کی سماعت کرنے والے کا جھکاؤ کسی فریق کی طرف زیادہ ہوتا ہے جس سے انصاف متاثر ہوتا ہے۔ اس طرح کا کوئی بھی عمل دارالقضاء کو داغدار کر سکتا ہے اور لوگ بدظن ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی معاملے کی سماعت میں غیر جانبداری ہونا بہت ضروری ہے۔‘‘ مفتی مکرم کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں نہ کیا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے لوگوں کو اپنی بات رکھنے کا موقع نہیں مل پاتا۔ اگر کوئی فریق اپنی بات رکھنے یا ثبوت پیش کرنے کے لیے کچھ وقت طلب کرتا ہے تو اس پر غور ضرور کیا جانا چاہیے۔‘‘ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو مفتی مکرم کا ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ ’’بورڈ کے ذریعہ کوئی ایسا نظام قائم کیا جانا چاہیے جس میں فیصلے پر اتفاق نہ رکھنے یا پھر کسی جانبداری کا شکار ہونے والا فریق کسی دوسری جگہ اپیل کر سکے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 09 Jul 2018, 1:11 PM
/* */