ایک عہد ساز شخصیت: مولانا وحید الدین خاں

مولانا وحید الدین خاں کے سانحۂ ارتحال پر پیش خدمت ہے ’شاہ عمران حسن‘ کا مضمون، جس میں مولانا کی زندگی، ان کی خدمات اور نظریات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے

مولانا وحیدالدین خان
مولانا وحیدالدین خان
user

شاہ عمران حسن

برصغیر کے نامور عالم دین مولانا وحید الدین خان نئی دلی میں انتقال کر گئے وہ 96 برس کے تھے۔ انہوں نے قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور قرآن کی تفسیر بھی لکھی۔ مولانا وحید الدین کو سال 2000 میں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا تھا، اس کے علاوہ بھی وہ کئی انٹر نیشنل ایوارڈز سے سرفراز ہو چکے تھے۔ مولانا وحید الدین خاں کے سانحۂ ارتحال پر پیش خدمت ہے ’شاہ عمران حسن‘ کا مضمون، جس میں مولانا کی زندگی، ان کی خدمات اور نظریات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے:

اِسلام کی نشاة ثانیہ کے لیے پچھلے 200سال سے کوششیں جاری ہیں اور اس کام کے لیے بے شمار رہنما عرب وعجم میں مسلمانوں کے درمیان اُبھرے۔ سرزمینِ ہند بھی اس معاملے میں بہت زرخیز ثابت ہوئی ہے اور بے شمار رہنما یہاں بھی پیدا ہوئے جنھوں نے تجدید واحیاء دین کے کام کو اپنا نشانہ بنایا۔ اور یہاں جن شخصیات نے تجدید واحیاء دین کے کام کو اپنا نشانہ بنایا اس فہرست میں ایک منفرد نام وہ ہے، جنھیں لوگ ”مولانا وحیدالدین خاں“ کے نام سے جانتے ہیں۔ مولانا موصوف کی شخصیت اُن کے علمی اور دینی کاموں کی وجہ سے محتاج تعارف نہیں ہے۔ اُن کی علمی اور دینی خدمات کا دائرہ کئی دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ وہ خاصی تعداد میں ایسی مستند کتابیں تحریر فرما چکے ہیں جن کا حوالہ سند کے طور پر دیا جاتا ہے۔

مولانا وحیدالدین خان کے ساتھ شاہ عمران حسن
مولانا وحیدالدین خان کے ساتھ شاہ عمران حسن

مولانا وحید الدین خاں کی پیدائش یکم جنوری 1925ء کو ہندوستان کے ایک علمی شہر”اعظم گڑھ“ کے ایک دور اُفتادہ گاوں”بڈہریا“میں ہوئی۔ ان کے والد فریدالدین خاں اپنے علاقے کے ایک بہت بڑے زمیندار تھے جو ہندوں اور مسلمانوں دونوں کی نظر میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے جب کہ ان کی والدہ زیب النساء گھریلو امور سنبھالنے والی ایک ذمہ دار خاتون تھیں۔ مولانا کے والد کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا تھا اس لیے ان کی مکمل پرورش ان کی والدہ نے اپنی نگرانی میں کی۔ مولانا کی ابتدائی تعلیم عربی درس گاہ میں ہوئی۔ عربی اور دینی تعلیم سے فراغت کے بعد اُنھوں نے علومِ جدیدہ کی طرف توجہ دی۔ اولاَ پرائیویٹ مطالعہ کے ذریعہ اُنھوں نے انگریزی زبان سیکھی۔ اُس کے بعد مغربی علوم کا مطالعہ شروع کیا۔ حتیٰ کہ اُن میں پوری دسترس حاصل کرلی۔

اسلامیات اور مغربیات دونوں قسم کے علوم سے بخوبی واقفیت حاصل کرنے کے بعد مولانا موصوف اِس نتیجہ پر پہنچے کہ اِس دور میں اسلام کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ جدید سائنسی دلائل سے اسلام کی حقانیت کو واضح کیا جائے اور عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر تیار کیا جائے اور پھر وہ اِس مہم میں لگ گئے۔


یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مولانا موصوف کے مطالعہ کا خاص موضوع اسلام اور دورِجدید ہے۔ میں نے تفصیل سے مولانا کی زندگی پر ایک ہزار صفحاف پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ”اوراقِ حیات“ تیار کی ہے، مولانا کی زندگی کو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بے حد مفید ہوگا۔ وہ اِس وقت دنیا میں مولانا موصوف کی حیات وخدمات کو جاننے کا واحد ذریعہ ہے۔ اِس کتاب کا امتیاز یہ ہے کہ یہ خود مولانا موصوف کی اپنی تحریروں پر مبنی ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ کتاب ”اوراقِ حیات“ مولانا وحیدالدین خاں کی ایک خود نوشت سوانح حیات کی حیثیت رکھتی ہے۔

اوراقِ حیات کے بارہ میں خود مولانا وحیدالدین خاں نے کہا کہ جو کام میں زندگی بھر نہیں کرسکا وہ کام 'شاہ عمران حسن' نے کر دکھایا ہے۔ مولانا وحیدالدین خاں اہل علم اورعالم اسلام کے درمیان ایک پُرامن داعی دین کی حیثیت سے معروف ہیں، جو بیک وقت چار زبانوں میں کام کرتے ہیں۔ اُردو، انگریزی، عربی، ہندی میں ان کی متعدد تحریریں منظرعام پرآتی رہتی ہیں۔


مولانا وحیدالدین خاں دراصل بے پناہ صلاحیتوں اور گونا گوں خصوصیات کا نام ہے۔ جن کی زندگی کے باب بے شمار ہیں، اور ہر باب اپنے آپ میں مستقل اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم مولانا کی زندگی کا اصل مشن: اسلام کے پُرامن دعوتی پیغام کی اشاعت۔ دعوت الی اللہ کا مطلب ہے اللہ کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچانا، اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ پیغمبر اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا سب سے بڑا مقصد یہی تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اب یہ ذمہ داری امتِ محمدی پرعائد ہوتی ہے۔

مولانا وحیدالدین خاں خود لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا مشن دعوت الی اللہ ہے۔ یہی عمل اس کی دُنیا و آخرت کی فلاح کا ضامن ہے۔ اسی عمل کوانجام دینے سے وہ اس کا مستحق قرار پاتا ہے کہ خدا کے یہاں امت محمدی کی حیثیت سے اُٹھایا جائے اور یہی وہ عمل ہے جو دُنیا میں اُس کی حفاظت و کامیابی کو یقینی بناتا ہے۔ اس کام کو چھوڑنے کے بعد مسلمان اللہ کی نظر میں اسی طرح بے حقیقت ہو جائیں گے جس طرح یہود اپنی داعیانہ حیثیت کو چھوڑنے کے بعد اللہ کی نظرمیں بے حقیقت ہوگئے۔ (ماہنامہ الرسالہ، جولائی1979،صفحہ:35 )


انیسویں صدی عیسوی اور بیسوی صدی عیسوی کے درمیان عالم اسلام میں بے شمار تحریکیں مختلف موضوعات کو لے کر اُٹھیں، مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اُٹھنے والی اُن تمام تحریکوں میں کسی بھی تحریک نے ’’دعوت الی اللہ“ کو اپنی جدوجہد کا مرکز و محور نہیں بنایا۔ بیسوی صدی عیسوی کے نصف اوّل میں اُٹھنے والی تحریکوں میں صرف ”تحریک الرسالہ“ نے دعوت الی اللہ کے کام کو اپنا مقصد ِ اوّل قراردیا، ابتداً یہ تحریک صرف مولانا وحیدالدین خاں کی ذات تک محدود تھی، اس کے بعد حالات بدلے، یہاں تک کہ آج دنیا کے ہر حصے میں دعوت الی اللہ کا کام ہو رہا ہے۔ موجودہ دور نے دعوت الی اللہ کے زبردست امکانات پیدا کردیئے ہیں۔ ایسے امکانات جو اِس سے پہلے تاریخ میں کبھی موجود نہ تھے۔ کیوں کہ پہلے مذہبی جبر کا ماحول تھا۔ اور مذہبی جبر کے ماحول میں انسان نہ تو آزادانہ طور پر اپنے مذہب پر عمل کرسکتا تھا اور نہ اپنے مذہب کی تبلیغ۔ مگر آج حالات بدل چکے ہیں۔

موجودہ دور مذہبی آزادی کا دور ہے۔ پُر امن ماحول میں آج کا انسان اپنے مذہب پر عمل بھی کرسکتا ہے اور اس کی تبلیغ بھی۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ نے متفقہ طور پر یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس کے نام سے جو اقرارنامہ جاری کیا ہے، اس میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ ہر مرد یا عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق جس مذہب کو چاہے اختیار کرے اور جس مذہب کی چاہے تبلیغ کرے۔


اِسی بات کو ہندوستان کے آئین کی دفعہ نمبر25 میں کہا گیا ہے کہ ہر ہندوستانی شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کی آزادی ہوگی۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پہلے آزادانہ طور پر مذہبی سرگرمیاں جاری نہیں کی جاسکتی تھیں مگر آج یہ ممکن ہوگیا ہے کہ کامل آزادی کے ساتھ مذہبی سرگرمیوں کو جاری رکھا جاسکے اور کوئی اس پر مداخلت نہ کرے۔ یہ ایک ایسی سچائی جس سے ہر پڑھا لکھا انسان واقف ہے۔ تاہم اس سلسلے کی ایک واقعاتی مثال مولانا کی زندگی سے پیش کی جاتی ہے۔

مولانا لکھتے ہیں کہ اسلام کے دورِ اوّل میں مکہ میں جو تھوڑے سے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ایمان لائے وہ کھل کر نماز نہیں پڑھ سکتے تھے۔ وہ چھپ کر اور انفرادی طور پر نماز پڑھا کرتے تھے۔ جب بھی کوئی مسلمان کعبہ میں داخل ہوکر وہاں نماز پڑھنا چاہتا تو وہاں کے مشرکین اُس کے خلاف شور وغل کرتے اور اس کو مارتے پیٹتے۔ یہاں تک کہ اس کے لیے سکون سے نماز ادا کرنا مشکل ہوجاتا۔


مثلاَ مکی دور کا واقعہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے اسلام قبول کیا تو ایک روز وہ کعبہ میں گئے اور اُنھوں نے اسلامی طریقہ کے مطابق نماز پڑھنا شروع کی۔ مکہ کے مشرکین نے اُن کو کعبہ میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو وہ دوڑ کر آئے اور اُن کے اُوپر ٹوٹ پڑے۔ اُنھوں نے اُن کو بُری طرح مارا پیٹا حتیٰ کہ یہ ممکن نہ رہا کہ وہ وہاں اپنی نماز کو پورا کر سکیں۔ اس وقت کی دُنیا میں ہرجگہ یہی صورتِ حال قائم تھی۔

مگر آج یہ حالت مکمل طورپر بدل چکی ہے۔ انیس اکتوبر 1996ء کو راقم الحروف کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا، جس کو یہاں بلا تقابل درج کر رہا ہوں۔ اس دن ممبئی میں چوپاٹی کے مقام پر ایک بہت بڑا جلسہ تھا۔ اس کو سوادھیائے تحریک والوں نے منظم کیا تھا۔ چوپاٹی کے وسیع میدان میں تقریباً 10 لاکھ ہندوحضرات اکٹھا تھے۔ ایک سرے پر بہت اُونچا اور بہت وسیع منچ بنایا گیا تھا۔ جس پر ایل کے اڈوانی اور دوسرے بہت سے بڑے بڑے ہندو لیڈر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی ایک مقرر کے طور پر یہاں مدعو تھا۔ اس دوران مغرب کی نماز کا وقت آگیا۔ میں نے اجتماع کے ناظم مہیش جی سے کہا کہ میری نماز کا وقت آگیا ہے اور اب مجھے نماز ادا کرنا ہے۔ اُنھوں نے فوراً کہا کہ آپ یہیں اسٹیج پر نماز پڑھ لیں۔ چنانچہ میں نے منچ کے ایک طرف کھڑے ہوکر سب کے سامنے مغرب کی نماز ادا کی۔ اس وقت سوادھیائے تحریک کے چیرمین داداجی پانڈو رنگ شاستری کی تقریر ہو رہی تھی۔ لوگوں نے بتایا کہ جب اُنھیں معلوم ہوا کہ میں یہاں نماز پڑھ رہا ہوں تو اُنھوں نے اپنی تقریر روکی اور میری طرف رُخ کرکے دونوں ہاتھ جوڑ کر مجھے پڑنام کیا۔


ان دونوں واقعات میں یہ فرق کیوں ہے۔ دورِ اوّل کے واقعہ میں غیر مسلموں نے ایک مسلمان کو نماز پڑھنے نہیں دیا تھا۔ آج خود غیر مسلموں کے بڑے مجمع میں ایک مسلمان آزادی کے ساتھ پُرسکون طور پر نماز ادا کرتا ہے۔ اس فرق کا سبب زمانے کی تبدیلی ہے۔ قدیم زمانہ میں مذہبی جبر کا نظام قائم تھا۔اور موجودہ زمانہ مذہبی آزادی کا زمانہ ہے۔ اس بنا پر آج مذہب کے حق میں ایسے امکانات کھل گئے ہیں جو کبھی پائے نہیں جاتے تھے۔ (ماہنامہ الرسالہ، اگست1997، صفحہ:11، دعوتِ حق، صفحہ:128۔129)

فکری اور دعوتی موضوعات پر مختلف زبانوں میں مولانا نے 200 سے زائد کتابیں تیار کی ہیں۔ ان میں سے اہم کتابوں کے نام یہ ہیں: نئے عہد کے دروازہ پر(مرتب: شاہ عمران حسن)، حقیقت کی تلاش، مارکسزم: تاریخ جس کو رد کر چکی ہے، تعبیر کی غلطی، مذہب اورجدید چیلنج، الاسلام، مذہب اور سائنس، پیغمبر انقلاب، احیاءِاسلام، عقلیاتِ اسلام، قرآن کا مطلوب انسان، دین کی سیاسی تعبیر، سوشلزم اور اسلام،ظہورِ اسلام، اسلامی زندگی، اسلام اور عصرِ حاضر، تذکیرالقران (تفسیر)، عظمت ِقرآن، حقیقت ِحج، اللہ اکبر، زلزلہ، قیامت، خاتونِ اسلام، رازِ حیات، تجدید ِ دین، اسلام دورِ جدید کا خالق، دینِ کامل، راہِ عمل، ہندوستانی مسلمان، کتابِ زندگی، شتمِ رسُول کا مسئلہ، دعوتِ اسلام، دعوتِ حق، سفرنامہ اسپین و فلسطین، فکر اسلامی، مطالعہ سیرت، مطالعہ قرآن، دین و شریعت، مسائلِ اجتہاد، مطالعہ حدیث، کشمیر میں امن، عورت: معمارِانسانیت، امنِ عالم، دعوت الی اللہ، حکمتِ اسلام، کتابِ معرفت، اسلام اور خدمت ِخلق، اظہارِدین، وغیرہ۔


مولانا وحیدالدین خاں کے اندر دعوت الی اللہ کا جذبہ بالکل ابتدائی عمر میں ہی پیدا ہوگیا تھا۔ شاید یہی سبب ہے کہ اُنھوں نے اپنی زندگی کے 25ویں سال یعنی 1950ء میں اعظم گڑھ میں ایک ادارہ قائم کیا جس کا نام تھا: من انصاری الی اللہ۔ اِس دعوتی ادارہ سے مولانا موصوف نے کئی کتابیں شائع کیں۔ یہ ادارہ اُس وقت تک جاری رہا جب تک مولانا موصوف اعظم گڑھ میں مقیم رہے۔

مولانا وقتی طور پر ہندوستان کی مختلف تنظیموں سے وابستہ ہوئے، اِس لیے باربار اُنھیں شہر بدلنا پڑا مگر دعوت الی اللہ کا کام مولانا موصوف کی نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ مولانا موصوف نے نئی دہلی میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ ملکی اور غیر ملکی سطح پر اسلامی دعوت کوعام کرنے کے لیے اور دعوت الی اللہ کے کام کو منظم طور پر کرنے کے لیے مولانا وحیدالدین خاں نے ہفت روزہ الجمعیة سے وابستگی کے دوران 1970ء میں نئی دہلی میں اسلامی مرکز قائم کیا۔ اور اِس ادارہ کو گورنمنٹ سے رجسٹرڈ کروایا۔ اِس ادارے کا رجسٹرڈ عربی اور انگریزی نام اِس طرح ہے: المرکز الاسلامی للبحوث والدعوہ: The Islamic Centre For Reasearch & Dawah اسلامی مرکز کے صدر کے طور پر مولانا محترم دینی خدمت کا کام انجام دینے لگے۔ اور اسلامی مرکز کے ترجمان(Organ) کے طور پر انھوں نے اکتوبر1976ء میں ماہنامہ الرسالہ جاری کیا۔


چوں کہ مولانا موصوف کا مشن مبنی بر جماعت نہیں مبنی برفرد ہے، اِس لیے مولانا موصوف نے اسلامی مرکز کا کام جمہوری طور پر نہیں چلایا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد ہے عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت۔ چنانچہ اسلامی مرکز کے تحت اسی دعوتی مقصد کے لیے 1976ء میں ماہنامہ الرسالہ جاری کیا گیا، جس کا مقصد تھا مسلمانوں کی اصلاح اور ان کی ذہنی تعمیر اور مسلمانوں کے اندر دعوت الی اللہ کا حقیقی شعور پیدا کرنا۔

مثبت بنیاد پر مسلمانوں کی اصلاح اور ان کی ذہنی تعمیر کا یہ کام جاری تھا کہ اسی دوران مولانا محترم نے غیر مسلموں کے تعلیم یافتہ طبقہ تک اسلام کے پر امن دعوتی پیغام کو پہنچانے کے لیے ایک ایک عظیم الشان دعوتی ادارہ سنٹر فارپیس اینڈ اسپریچولٹی انٹرنیشنل قائم کیا۔ سی پی ایس انٹرنیشنل نئی دہلی میں جنوری 2001ء میں قائم ہوا۔ جیسا کہ اِس کے نام سے ظاہر ہے، اِس کا مقصد امن اور رُوحانیت کو فروغ دینا ہے۔ یہ ایک غیر سیاسی تنظیم ہے۔ اس کا اصل نشانہ فکری انقلاب لانا اور انسان کو حقیقی انسان بنانا ہے۔


مولاناوحیدالدین خاں نے 2010ء میں ایک نیا دعوتی شعبہ” القرآن مشن“ شروع کیا جس کا بنیادی مقصد ادخاِل کلمہ ہے، یعنی گھر گھر دعوت کا پیغام پہنچانا۔ سی پی ایس کے تحت ملک اور بیرون ملک میں غیر مسلوں کے درمیان اسلام کا پرامن پیغام پہنچایا جا رہا ہے، خاص طور پر انگریزی زبان میں دعوتی لٹریچر اور قرآن کے ترجمے کی اشاعت کا کام بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے، جاری ہے۔

مولانا کی فکری اور دعوتی خدمات کے اعتراف میں قومی اور بین اقوامی سطح پر متعدد ایوارڈ سے نوازا گیا۔ عام طور پر انھیں کو ایمبسڈر آف پیس کہا جاتا ہے۔ مولانا کو سب سے پہلا ایوارڈ سند ِ امتیاز حکومت پاکستان کی جانب سے 1983ء میں اُن کی کتاب پیغمبر انقلاب پر ملا، اس کے علاوہ مولانا کو سیرت انٹرنیشنل ایوارڈ منجانب حکومتِ پاکستان، محمودعلی خاں نیشنل انٹگریشن ایوارڈ، نیشنل سٹی زن ایوارڈ بدست مدر ٹریسا،ارونا آصف علی سدبھاونا ایوارڈ، قومی یکجہتی ایوارڈ منجانب حکومت ہند، دہلی اردواکادمی ایوارڈ برائے صحافت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ایورڈ، دیوالی بین موہن لال ایوارڈ، نیشنل امیٹی ایوارڈ، ایف آئی ای فاونڈیشن ایوارڈ، ڈیموگرس انٹرنیشنل ایورڈ سفیر امن ایوارڈ، مہاتماگاندھی نیشنل ایوارڈ فارٹالرنس، راجیوگاندھی سدبھاونا ایوارڈ وغیرہ سے نوازا گیا۔


چھبیس جنوری 2000ء کو حکومت ہند کی جانب سے مولانا وحیدالدین خاں کو تیسرے سب سے بڑے شہری اعزاز”پدم بھوشن“ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ دوبئی کی ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے سیدناحسن بن علی ایوارڈ اور امریکی مسلمانوں کی تنظیم اثنا (ISNA) کی جانب سے لائف ایچومنٹ ایوارڈ سے نوازاگیا ہے۔ رواں برس 2021ء میں حکومت ہند مولانا وحیدالدین خاں کو تیسرے سب سے بڑے شہری اعزاز”پدم ویبھوشن“ دینے کا اعلان کیا ہے، جب کہ مولانا کی عمر ہجری کلنڈر کے اعتبار سے سو سال ہونے جا رہی ہے۔

اسلامی دعوت کے پر امن دعوتی پیغام کوعام کرنے کے لیے مولانا نے تقریر وتحریر کے علاوہ ہند و بیرونِ ہند کے متعدد اسفار کیے، جس کا سلسلہ جاری ہے۔ انھوں نے پاکستان، لیبیا، لندن، سعودی عرب، مالدیپ، باربیڈوز، امریکا، عرب امارات، ملیشیا، مراکو، بماکو، سوئزرلینڈ، افغانستان، یمن، اردن، سینیگال، روم، مالٹا، قاہرہ، کولمبو، اٹلی، اسپین، فلسطین، فلارنس، عمان، بنگلہ دیش، سیول، قبرص، اسرائیل، پولینڈ، قطر اور ترکی وغیرہ کا سفر کیا۔ اور ان اسفار کے انھوں نے سفرنامے تحریر کیے جو ماہنامہ الرسالہ کے صفحات میں شائع ہوئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 22 Apr 2021, 4:11 PM
/* */