12 ربیع الاول: امت مسلمہ کے لیے عہدو پیمان کا دن

آج 12 ربیع الاول جیسے مبارک موقع پرمسلم دنیا کو آپس میں متحد ہو کر چلنے کا عہد کرنا چاہئے۔ اگر یہ ایک ہوگئے تو دنیا میں نیا انقلاب برپا ہوجائے گا۔

عید میلاد النبیؐ کا جلوس
عید میلاد النبیؐ کا جلوس
user

نواب علی اختر

ماہ ربیع الاول کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس بابرکت مہینے میں سرکارِ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیؐ کی ولادت باسعادت بھی ہوئی اور آپ اسی مہینے اپنی دنیاوی زندگی مکمل کر کے مقامِ محمود پر فائز ہونے کے لیے اس دنیا سے پردہ کر گئے۔ ہم خاطی انسان اس نبیؐ برحق کی عظمت اور فضیلت کا صرف تصور ہی کرسکتے ہیں، کیونکہ بیان کرنا ممکن نہیں ہے، یایوں کہا جائے کہ اگر تمام درخت قلم بن جائیں، تمام سمندر سیاہی بن جائیں اور جنات حساب میں لگ جائیں اور تمام انسان لکھنے لگ جائیں تب بھی شان مصطفیٰؐ کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن میں خالق کائنات فرماتا ہے کہ میں اپنے اس نبی پر صلوة و سلام کرتا ہوں۔

ایسے اہم اور خاص دن پر اس روئے زمین پر بسنے والے ہر انسان بالخصوص فدائین رسولؐ کو چاہئے کہ آج کے دن اپنا محاسبہ کریں۔ موجودہ وقت میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پچھلے 12 ربیع الاول سے آج تک اپنے اعمال کا جائزہ لیا جائے اور آئندہ اس مدت کے لیے منصوبہ سازی کی جائے، مگرعادتاً مسلمانوں سے اس طرح کی امید کرنا خام خیالی ہوگا کیونکہ اس قوم کے لیے مشہور ہے کہ کھانا کھانے کے بعد مسلمان اس قدر نشے میں ہو جاتا ہے کہ اسے بستر کے علاوہ کچھ نظرہی نہیں آتا اور لیٹنے کے بعد اپنی تمام فکریں، غم، درد سے ایسے پیچھا چھڑا لیتا ہے جیسے یہ اس کی آخری رات ہے۔


مسلمانوں کی یہ خصوصیت ہے کہ سب کو یہ تو معلوم ہے کہ ’دوسروں‘ کو کیا کرنا چاہیے لیکن خود کام میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کو ذرا بھی پتہ نہیں کہ انھیں کیا کرنا چاہیے، چنانچہ دن رات دوسروں کو سیدھی راہ پر لانے میں مصروف ہوتے ہیں، صبح اٹھتے ہی اس کوشش میں لگ جاتے ہیں کہ دوسروں کو سیدھے راستے پر لائیں۔ اس قوم کے اندر دوسروں کو راہ راست پر لانے، جنت الفردوس پہنچانے، مسلمان بنانے کا جذبہ اتنا شدید ہے کہ بیچارے خود اپنی طرف توجہ نہیں دے پاتے یعنی دوسروں کے کھیت کی سینچائی کرتے ہوئے اپنے ”کھیت“ کو بھول جاتے ہیں جو بنجر رہ جاتی ہے۔

یہ ویسا ہی ہے جیسے ایک پرجوش مسلمان نے ایک کافر کو پکڑ کر، اس کی چھاتی پر بیٹھ کر گلا دباتے ہوئے کہا، کلمہ پڑھ، نیچے پڑے ہوئے کافر نے کہا، آپ بتائیں، میں پڑھتا ہوں، دوسروں کو مسلمان بنانے میں اسے اتنی فرصت کہاں تھی کہ ”کلمہ“ یاد رکھتا۔ چنانچہ اس نے دوچار تھپڑ اس کافر کو رسید کرتے ہوئے کہا۔ کیسے کافر ہو تم، کلمہ پڑھنا بھی نہیں آتا۔ مسلمانوں کی اور بھی بہت ساری صفات مشہور ہیں مگر دراصل ہمارا آج امت مسلمہ کو تبلیغ کرنا مقصود نہیں بلکہ گفتار کے غازی، کردار سے خالی لوگوں کو ان کے بزرگوں کی قربانیوں اور جدوجہد کی یاد دلانا ہے جو ایک تاریخ ہے۔


اپنے دورِ زریں میں مسلمانوں نے دنیا میں نہ صرف انقلاب برپا کیا بلکہ لوگوں کے لیے سوچ کا ایک نیا زاویہ بھی دیا۔ سائنس مسلمانوں کی دین ہے، اس کے علاوہ مسلمانوں نے جو اہم ایجادات کیں ان میں گھڑی، علم فلکیات و ارضیات، کیمرہ، پیرا شوٹ، دوربین اور دوسری اشیاء شامل ہیں۔ یہ سب ایجادات اگرچہ مسلمانوں کی ہیں اور ہمیں اس پر فخر بھی کرنا چاہیے لیکن آخر کب تک؟ سوال یہ ہے کہ اس وقت مسلمان، دنیا میں تقریباً دو ارب ہیں، ان کا بنی نوع انسانوں کے لیے کیا کردار ہے؟ انھوں نے عصر حاضر میں کیا کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو انسانیت کے لیے نفع بخش ہو؟ جو اب نفی میں ہوگا۔

دوسری طرف مغرب، جس نے ماضی کی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا اور آج علم کی دنیا میں مستقل آگے جا رہا ہے۔ وہاں سے ہر روز نت نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں۔ ایک طرف مغرب تحقیق کے کاموں میں مصروف ہے تو دوسری طرف ہم ابھی تک ماضی کی مثالیں دے دے کر تھکنے کے بجائے خوش ہو رہے ہیں۔ ہم یہ کہنے پر حق بجانب ہیں کہ علم کی دنیا میں ہم اہل مغرب سے کم از کم 100 سال پیچھے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم مسلسل پستی کی جانب گامزن ہیں؟ اگر دیکھا جائے تو اس کی کئی وجوہات ہیں جن پر قابو پانے کی صورت میں مسلمان ایک بار پھر اپنا اصل مقام حاصل کرسکتے ہیں۔


ہمیں سب سے پہلے سیاسی اختلافات پر قابو پانا ہوگا، وہیں اس امت کا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم مخالف مسلک کو مسلمان ہی نہیں مانتے۔ جس کی وجہ سے اختلافات مستقل بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور ہم کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ تعلیمی اختلافات بھی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔ ابھی تک مسلم دنیا کوئی ایک ایسا تعلیمی نظام متعارف نہیں کرا سکی جہاں دینی و دنیاوی تعلیم ایک ساتھ ہوسکے۔ جبکہ ماضی میں کسی مسلم شخصیت کے بارے میں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دین کا عالم ہونے کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں بھی مہارت رکھتا تھا۔ تحقیق ہر روز علم کے نت نئے دروازے کھولتی ہے۔

ہمارے یہاں تحقیق ماضی میں کیے گئے کاموں (ہم نے یہ کیا، ہم نے وہ کیا) پر ہو رہی ہے۔ کوئی نیا کام نظر نہیں آ رہا، جس پر یہ کہا جاسکے کہ واقعی یہ معیاری کام اور معیاری تحقیق ہے۔ موجودہ حالات سے سبق لینے کی ضرورت ہے باوجود اس کے امت مسلمہ اپنے ماضی سے باہر نکلنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ سیاسی اختلافات ضرور کیجیے، لیکن یہ اختلافات مثبت تنقید کی صورت میں ہوں تو زیادہ بہتر ہے۔ اس سے مسلم دنیا نہ صرف قریب آئے گی بلکہ آگے بھی بڑھے گی۔ مذہبی اختلافات کی اصطلاح کو اگر ’مذہبی مودت‘ کر لیا جائے تو جو اتحاد ملت قائم ہوگا وہ شاید دنیا کے لیے کسی کامیابی سے کم نہ ہوگا۔


مسلم دنیا کو چاہیے کہ ایک ایسا تعلیمی نظام متعارف کرائے جہاں دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کی باقاعدہ تعلیم دی جائے جس میں سائنسی علوم پر تحقیق کی جائے، موجودہ دنیا سائنسی دنیا ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جس میں ایک چھوٹا سا بچہ سائنس کی نہ صرف بنیادی معلومات رکھتا ہے بلکہ عملی تجربات بھی کرتا رہتا ہے۔ اس موقع پر اس کے سوالات (خاص کر مذہبی) کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اسے ایسے دلائل جو اس کی عمر کی مناسبت سے ہوں، سے جوابات دیئے جائیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو تنقیدی نگاہ رکھتے ہیں ان کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ علم کے دریچے مزید کھلتے چلے جائیں۔ آج 12 ربیع الاول جیسے مبارک موقع پرمسلم دنیا کو آپس میں متحد ہو کر چلنے کا عہد کرنا چاہئے۔ اگر یہ ایک ہوگئے تو دنیا میں نیا انقلاب برپا ہوجائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔