میسو پوٹامیا: اوروک، دنیا کا سب سے پہلا شہر کیسے بنا؟ ... وصی حیدر

تفصیلی کھدائیوں میں حاصل ہوئی چیزوں اور خاص کر شہر کے انتظام سے متعلق قلم بند لکھائی سے اوروک میں ہونے والی تہذیبوں کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔

میسو پوٹامیا / Getty Images
میسو پوٹامیا / Getty Images
user

وصی حیدر

(26 ویں قسط)

میسوپوٹامیا میں انسانی تہذیب کی شروعات تقریباً 10000 سال (ق م) میں ہوئی اور یہاں پر انسانی تہذیب کے ارتقاء نے دنیا کو اہم چیزیں دیں۔ گول پہیہ، اناج کی کھیتی باڑی، پہلی لکھائی زبان، فلکیات اور دنیا کے پہلا شہر۔ یہ عظیم تہذیب دو دریاؤں دجلہ اور فرات کے درمیان آس پاس کے علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ سومیریا اور اکاڈین کا دبدبہ 3100 ق م سے 539 ق م تک رہا، جب سکندر اعظم نے اس کو فتح کیا، اس کی وفات کے بعد یہ علاقہ یونانیوں کے قبضہ میں آگیا۔

ہم یہاں پر خاص طور پر ان چیزوں کا ذکر کریں گے جن کی وجہ سے دنیا کا پہلا شہر اوروک وجود میں آیا۔ تفصیلی کھدائیوں میں حاصل ہوئی چیزوں اور خاص کر شہر کے انتظام سے متعلق قلم بند لکھائی سے اوروک میں ہونے والی تہذیبوں کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ پوری کہانی لیورنی نے اپنی کتاب ’’پہلا شہر‘‘ میں بیان کیا ہے۔


نچلے جنوبی میسو پوٹامیا کے علاقہ میں کھیتی کی پیداوار کو بڑھانے کے لئے بڑے پیمانہ پر مل جل کر آبپاشی کی سہولت کو مہیا کرنے کے عمل میں گاؤں سے شہر وجود میں آئے۔ جغرافیائی فرق کی وجہ سے نچلے جنوبی میسو پوٹامیا میں بمقابلہ شمال کے علاقہ آبپاشی کھیتی کے لئے ضروری تھی۔ شمالی میسو پوٹامیا ایک وادی ہے جہاں پر دریا کے آس پاس کھیتی ہو رہی تھی اور وہاں پانی کی ضرورت موسمی سیلابوں سے ہوجاتی تھی۔ اس کے برخلاف جنوبی علاقہ ایک ستواں میدانی علاقہ ہے جو ان دریاؤں کا ڈیلٹا ہے جو اس علاقہ میں کامیاب کھیتی کے لئے آبپاشی بہت ہی اہم ہے۔

آبپاشی کے مشکل انتظام کو انجام دینا اور اس کو اچھی حالت میں رکھنے کے لئے بہت سارے لوگوں کا ایک ساتھ مل جل کر کام کرنا ضروری تھا۔ دریاؤں کے کنارے سے دور بڑے کھیتوں تک پانی پہنچانے کے کام کو مرکزی کمیٹی ہی انجام دے سکتی ہے۔ آبپاشی کی شروعات کے بعد کھیتی کے کام سے متعلق کئی اور ایجادات کا راستہ ہموار ہوا۔ کھیتوں میں جانوروں کا استعمال کرکے ہل کا استعمال اور بیج بونے کا طریقہ۔ آبپاشی کے ساتھ ان نئی ایجادات کی وجہ سے پیداوار اور خاص کر باجرہ کی پیداوار میں پانچ سے دس گنا اضافہ ہوا ہوگا۔


کھانے پینے کے سامان کی فراوانی، سماج میں برابری، زیادہ تر گھروں کی ایک جیسی بناوٹ، دفنانے کے لئے قبروں کی بناوٹ میں کوئی خاص تبدیلی کافی عرصہ تک نہیں ہوئی، اس کے برخلاف مندروں کے سائز اور خوبصورتی میں زبردست تبدیلیاں ہوئیں۔ لیورنی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ اعلیشان بڑے مندروں سے یہ لگتا ہے کہ پورے سماج پر مندروں اور پجاریوں کو دبدبہ تھا جو کہ سماج میں معنیٰ خیز تبدیلیوں کا ایک پیش خیمہ تھا۔ برابری والے سماج میں ابھرتی ضرورتیں، جس میں بہت سارے لوگوں کو مل کر کام کرنا پڑا، اس کی آڑ میں لوگوں سے ٹیکس وصولی کے نام پر مندر کے انتظام کرنے والے لوگ عام لوگوں پر حاوی ہونے لگے۔ اس کام کو کرنے کے لئے زور زبردستی شاید مہنگی ثابت ہوتی، اس لئے ابھرتے مذہب اور دیوی دیوتاؤں کی خوشنودی کا استعمال شروع ہوا۔ مندر جو خدا کا گھر کہلاتے تھے وہ سب سے بڑے زمیندار ہوگئے اور مندر کے پجاری لوگوں سے کھیتی کی پیداوار کا ایک حصہ لے کر طے کرتے کہ اس کو کیسے استعمال کیا جائے گا۔

ان چیزوں کو اچھی طرح کرنے کے عمل میں ایک طبقہ حساب کتاب کی فکر کرتا تھا کہ کس نے کتنا ٹیکس کب دیا، کاری گر جو مندروں میں خوبصورت مورتیاں بناتے تھے اور تجارت کے کام کرنے والے جو عالیشان مندروں کے سامان بنانے کے علاوہ دیگر ضرورت کا سامان مختلف جگہوں سے حاصل کرتے تھے، زیورات بنانے کے لے قیمتی پتھر اور مختلف دھات کی چیزیں باہر سے ہی آئیں کیونکہ یہ چیزیں اوروک میں نہیں ہوتی تھیں۔


تحقیقات سے یہ اچھی طرح معلوم ہوا ہے کہ کس طرح مذہبی اور سماجی سبھی اوروک کے ابھرتے شہر کے پورے تانے بانے کو سنبھالے ہوئے تھی۔ کھیتی باڑی کرنے والے لوگ جن کی زندگی پیدوار اور مویشیوں کے نشونما پر منحصر تھی ان کے لئے ایسے دیوتا اہم تھے جو اچھی پیداوار کی ضمانت لے سکیں۔ مختلف چیزوں کے لئے کئی طرح کے دیوتا ابھرنے لگے۔ مندروں کے لئے بیگار کام دیوتاؤں کی خوشنودی کے لئے عام ہوگیا اور ان کی شان میں نظمیں، کہانیاں عام لوگوں کی زندگی کا حصہ بننے لگیں۔ ان کہانیوں میں خاص توجہ ساتھ مل جل کرکام کرنے پر تھی۔ ایک خاص دیوتا، اٹرم ہس سے متعلق اس کہانی کا لب و لباب یہ ہے کہ اسنانوں کو اس لئے بنایا گیا کہ چھوٹے دیوتا کھیتی کرتے ہوئے تھک گئے اور اب انسان کا سب سے اہم کام بڑے دیوتاؤں کے لئے کھیتی باڑی کرنا ایک مذہبی فریضہ ہے۔

اگلی قسط میں ہم اس پر غور کریں گے کہ اوروک سے حاصل ہوئی شہروں کے ابھرنے کی سمجھ سے ہم وادی سندھ کی تہذیب کے بارے میں کیا سیکھ سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */