ہڑپا اور موہن جودارو… وصی حیدر

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہندوستانی تہذیب 5000 سال پرانی ہے تو مطلب یہی ہے کہ موہن جودارو اور ہڑپا کے شہر اتنے ہی پرانے ہیں۔ اسی زمانہ میں پورے علاقہ میں ایک طرح کی زبان، مہریں استعمال ہونے لگیں تھیں۔

پاکستان: وادی سندھ میں موہن جودارو کے آثار قدیمہ کے مقام کا گڑھ / Getty Images
پاکستان: وادی سندھ میں موہن جودارو کے آثار قدیمہ کے مقام کا گڑھ / Getty Images
user

وصی حیدر

(24 ویں قسط)

کس طرح سے کھیتی باڑی کرتے ہوئے گاؤں ایک بڑی تہذیب کی شکل میں ابھرے۔ انسانی آبادی کی تہذیب کا کیا مطلب ہے۔ ہم سب یہ کیوں کہتے ہیں کہ ہندوستانی تہذیب 5000 سال پرانی ہے۔ اب ہم ان سوالوں کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

کسی بھی انسانی تہذیب کا شہروں کے ابھرنے سے گہرا تعلق ہے۔ دنیا بھر کے پہلے شہروں کی خصوصیات ایک جیسی ہیں۔ شہروں کی آبادی گاؤں کے مقابلہ ہزاروں گنا زیادہ ہوتی ہے اور شہروں میں مختلف طرح کے کاریگر، تجارت کرنے والے۔ نظم و ضبط کرنے والے افسران مکان، سڑک اور دیگر کام کے ماہرین، حساب کتاب کرنے والے لوگ، حکومت کرنے والے لوگ جو پیداوار کا ایک حصہ ٹیکس کی شکل میں حاصل کرکے عام شہری سہولتیں مہیا کرتے اور شہروں کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں۔ شہروں میں مصور، رنگ و رغن سے آراستہ مورتیاں اور مہریں بنانے، زیورات بنانے کے ماہرین، جو اس جگہ کی خاص پہچان بناتے ہیں۔ تجارت کرنے والے جو دیگر جگہوں سے ضرورت کا سامان حاصل کرتے ہیں، جو ان کے علاقوں میں نہیں ہوتا تھا۔ یہ تمام خصوصیات ہڑپا کے مختلف شہروں مثلاً موہن جودارو، ڈھولاویرا، راکھی گڑھ اور کالی بنگان میں ملتی ہیں۔


شہروں کی اوپر بیان کی گئی تعریف کے لحاظ سے دنیا کا سب سے پہلا شہر میسوپوٹامیا کا اوروک (Urak) جو گل گامش کی مشہور داستان کا دارالسلطنت تھا۔ یہ شہر اپنے عروج پر 3200 (ق م) کے زمانہ کا ہے۔ ہڑپا اور موہن جودارو کے شہر اسی طرح کے 2600 (ق م) کے دوران کے ہیں۔

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہندوستانی تہذیب 5000 سال پرانی ہے تو مطلب یہی ہے کہ موہن جودارو اور ہڑپا کے شہر اتنے ہی پرانے ہیں۔ اسی زمانہ میں پورے علاقہ میں ایک طرح کی زبان، مہریں استعمال ہونے لگیں تھیں۔ کھدائی سے حاصل ہوئے مٹی کے برتن، جو آگ میں پکائے گئے، ان پر لکھائی تقریباً 3300(ق م) میں شروع ہوئی جو بعد میں پورے علاقہ کی زبان بنی۔ تقریباً اس زمانہ میں میسوپوٹامیا، مصر اور چین کے تہذیبوں میں زبان اور لکھائی شروع ہوئی۔


ہڑپا کے آس پاس کے شہروں کی حفاظت کے لئے بہت بڑی دیواروں کو بنایا گیا جن کو بنانے میں اب بھی 500 مزدور تین مہینہ میں بنا پائیں گے۔ اس طرح کی دیوار بنانے کے سامان کو مہیا کرنا بغیر کسی گاڑی کے ممکن نہیں۔ اسی زمانہ میں بیل گاڑی کی ایجاد ہوئی جس کے کھلونے ہڑپا اور ہریانہ کے گیرواڑ میں 3700 (ق م) کے پائے گئے ہیں اور تقریباً اسی زمانہ میں میسوپوٹامیا اور جگہوں پر سامان کو ڈھونے کے لئے بیل اور بھینس گاڑی کا استعمال شروع ہوا۔ یعنی گول پہیہ کی ایجاد ہوئی۔

اگر آپ ہڑتا تہذیب کی عظمت کا انداز لگانا چاہتے ہیں تو گجرات کے رن اف کچھ کے علاقں میں ڈھولا ویرا جا کر دیکھیں۔ یہ شہر احمد آباد سے ساڑھے تین سو کلو میٹر دور خادر جزیرہ پہ واقع ہے۔ اس کا راستہ قابل دید ہموار علاقہ سے گزرتے ہوئے جس کے چاروں طرف سفید چمکدار نمک کی چادر بچھی ہوئی ہے۔ جب آپ ڈھولاویرا پہنچ جائیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ ایک عجیب وغریب دنیا میں پہنچ گئے۔ یہ ہڑپا تہذیب کا ہندوستان میں بہترین نمونہ ہے۔ آپ کا دل خوشی س تیز دھڑکنے لگے گا کہ ہمارے آباؤ اجداد 5000 سال پہلے کس طرح کی حیرت انگیز چیزیں کر رہے تھے۔ کھدائی میں جس طرح کی عالیشان عمارتیں دستیاب ہوئیں وہ نہایت ہی پائیدار بنیادیں حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔ یہ علاقہ تقریباً 100 ہیکٹیئر میں پھیلا ہوا ہے۔


ڈھولا ویرا کا شہر نہایت سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت بنا ہوا ہے، دھوپ اور آگ میں پکی ہوئی خاص ناپ کی اینٹوں سے بنی عمارتیں ایک تفصیلی منصوبہ بندی کی گواہ ہیں۔ جن لوگوں نے اس طرح کے شہروں کو منصوبہ بندی کرکے تعمیر کروائے وہ قابل تحسین ہیں۔

یہ عظیم تہذیب 1900 (ق م) کے آس پاس زوال پذیر ہوئی اس کے بعد تقریباً 1000 سال کے بعد ہی ہندوستان میں موریہ خاندان کی حکمرانی میں اس طرح کی عمارتیں بن سکیں۔ زیادہ تر ماہرین کا اندازہ ہے کہ مستقل میں کئی موسموں تک بارش کے نہ ہونے سے زبردست سوکھا پڑا جن سے فصلیں برباد ہوئیں اور ہڑپا تہذیب کے لوگوں کو اپنے شہر اور گاؤں چھوڑ کر جانا پڑا۔ یہ سوکھا تقریباً 1000 سال تک رہا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔