کورونا انفیکشن کا ’بلڈ گروپ‘ سے ہے خاص رشتہ، نئی تحقیق میں انکشاف

ایک نئی تحقیق کے مطابق کورونا کا ’بلڈ گروپ‘ سے ایک خاص رشتہ ہے، اور ایسا اس لیے کہا جا سکتا ہے کیونکہ کچھ بلڈ گروپ والے لوگوں پر اس انفیکشن کا اثر زیادہ ہوتا ہے اور کچھ بلڈ گروپ والے لوگوں پر بہت کم۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

دنیا میں کورونا انفیکشن کے بڑھتے اثرات کے درمیان اس پر مختلف نوعیت کی تحقیق کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس درمیان ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کورونا انفیکشن کا 'بلڈ گروپ' سے ایک خاص رشتہ ہے، اور ایسا اس لیے کہا جا سکتا ہے کیونکہ کچھ بلڈ گروپ والے لوگوں پر اس انفیکشن کا اثر زیادہ ہوتا ہے اور کچھ بلڈ گروپ والے لوگوں پر بہت کم۔

اس تازہ تحقیق کے متعلق اردو نیوز پورٹل 'وائس آف امریکہ' پر ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لاکھوں افراد پر کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ خون کے 'او گروپ' کے لوگوں کو کورونا وائرس زیادہ متاثر نہیں کرتا، جبکہ 'اے گروپ' کے لوگ زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جینیٹک ٹیسٹ کرنے والی فرم ٹوئنٹی تھری اینڈ می نے اپریل میں اس پر تحقیق کرنا شروع کی تاکہ سائنس دانوں کی مدد کی جا سکے اور وہ جان سکیں کہ کیوں کورونا وائرس کچھ لوگوں کو بہت تکلیف پہنچاتا ہے اور کچھ لوگوں میں معمولی علامات ظاہر ہوتی ہیں یا کوئی علامات نہیں ہوتیں۔


رپورٹ کے مطابق اس ہفتے کمپنی نے اس تحقیق کے ابتدائی نتائج جاری کیے جس کے لیے تقریباً ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ مریضوں کا ڈاٹا جمع کیا گیا تھا۔ کمپنی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تحقیق ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے اور اس کا کام اعلیٰ پیمانہ پر جاری ہے، لیکن ابتدائی ڈاٹا سے محسوس ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے میں کسی شخص کا بلڈ گروپ اہم کردار ادا کرتا ہے۔

تحقیق کرنے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ عمر، صنف، قد و قامت، نسل اور دوسرے فرق دیکھنے کے باوجود نتائج میں فرق نہیں پڑا۔ گویا کہ یہ بات واضح ہے کہ او بلڈ گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد نئے کورونا وائرس سے کم متاثر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ درحقیقت دوسرے بلڈ گروپس کے مقابلے میں او بلڈ گروپ کے لوگوں کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آنے کا امکان 9 سے 18 فیصد کم ہوتا ہے۔


اس تحقیق کے سربراہ ایڈم اوٹن نے امریکی خبر رساں ادارے بلوم برگ کو بتایا کہ کورونا وائرس کے خون میں کلاٹ بننے اور دل کی بیماری سے تعلق کے بھی شواہد ملے ہیں۔ ان شواہد سے اشارے ملے ہیں کہ کون سے جینز کا اس سے تعلق ہے۔ انھوں نے کہا کہ اتنی زیادہ تعداد میں نمونے دیکھنے کے باوجود تحقیق ابتدائی مرحلے میں ہے اور جینیاتی تعلق معلوم کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگی۔ انھوں نے مزید بتایا کہ صرف ان کی ٹیم نہیں بلکہ دنیا میں اور بھی ماہرین ہیں جو اس بارے میں تحقیق کررہے ہیں۔ ان سب کو اپنی تحقیق کے نتائج کو اکٹھا کرکے دیکھنا ہوگا تاکہ کورونا وائرس اور جینیات میں تعلق کے سوالات کے جواب مل سکیں۔

یہاں قابل غور ہے کہ ابتدائی مرحلے میں ہونے کے باوجود اس تحقیق کے بلڈ گروپ سے متعلق نتائج کورونا وائرس سے متاثر ہونے یا نہ ہونے میں کردار پر دوسرے ماہرین کی نتائج سے میل کھاتے ہیں۔ مثلاً چین میں کی گئی ایک تحقیق سے بھی معلوم ہوا تھا کہ او بلڈ گروپ کورونا وائرس کے خلاف زیادہ مدافعت رکھتا ہے، جبکہ اے بلڈ گروپ کے لوگ زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔ اٹلی اور اسپین میں 1600 ایسے مریضوں کا ڈاٹا دیکھا گیا جنھیں سانس لینے میں شدید مشکلات پیش آئیں۔ معلوم ہوا کہ اے بلڈ گروپ کے 50 فیصد سے زیادہ لوگوں کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔