کووڈ کو لے کر ہوئی ایک نئی طبی تحقیق نے سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کو کیا حیران

بیماری کی شدت چاہے جو بھی ہو، مگر صحتیابی کے بعد متعدد افراد کی جانب سے مختلف علامات جیسے تھکاوٹ سے لے کر اعضا کو نقصان کو رپورٹ کیا گیا ہے حالانکہ وائرس جسم سے کلیئر ہوچکا ہوتا ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

برلن: کووڈ کو شکست دینے کے بعد کئی ہفتوں یا مہینوں تک مختلف علامات کا سامنا کرنے والے افراد کے خون کے خلیات میں تبدیلی آسکتی ہے۔ یہ بات جرمنی میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ کورونا کی طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والے مریضوں کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کووڈ کو شکست دینے والے ہر فرد کو مہینوں تک مختلف طبی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ بیماری کی شدت چاہے جو بھی ہو، مگر صحتیابی کے بعد متعدد افراد کی جانب سے مختلف علامات جیسے تھکاوٹ سے لے کر اعضا کو نقصان ہوا ہے، حالانکہ وائرس جسم سے کلیئر ہوچکا ہوتا ہے۔

طبی جریدے جرنل بائیو فزیکل میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کورونا وائرس کچھ مریضوں کے خون کے خلیات کے حجم اور افعال کو بدل سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق چونکہ خون کے خلیات کسی بھی فرد کے مدافعتی ردعمل کا حصہ ہوتے ہیں اور جسم میں آکسیجن کی فراہمی کا کام کرتے ہیں، تو ان میں آنے والی تبدیلیاں طویل المعیاد پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہیں۔


خیال رہے کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں خون گاڑھا ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں بلڈ کلاٹس اور فالج کا امکان بھی بڑھتا ہے۔ خون کی پیچیدگیوں کو کووڈ سے منسلک کیا جاتا ہے تو اس تحقیق میں جرمن ماہرین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا خون کے خلیات بھی لانگ کووڈ کا حصہ ہوتے ہیں یا نہیں۔ میکس پلانگ زینٹریم کے ماہرین نے اس مقصد کے لیے 40 لاکھ سے زیادہ خون کے خلیات کا تجزیہ کیا۔

ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ خلیات لانگ کووڈ کے 17 مریضوں، کووڈ کو شکست دینے والے 14 افراد اور 24 صحت مند رضاکاروں (کنٹرول گروپ) کے نمونوں سے حاصل کیے گئے۔ اس کے بعد رئیل ٹائم ڈی فارمیبیلٹی cytometry نامی طریقہ کار میں فی سیکنڈ ایک ہزار خون کے نمونے ایک تنگ پتی سے گزارے گئے، جن میں خون کے مدافعتی خلیات اور سرخ خلیات بھی شامل تھے جو جسم میں آکسیجن کی فراہمی کا کام کرتے ہیں۔ آخری مرحلے میں ایک کیمرے سے خلیات کے حجم اور ساخت میں تبدیلیوں کو ریکارڈ کیا گیا۔ نتائج سے انکشاف ہوا کہ لانگ کووڈ کے مریضوں کے خون کے سرخ خلیات کنٹرول کے مقابلے میں بہت زیادہ مختلف تھے۔ محققین نے بتایا کہ ہم بیماری کے دوران اور اس کو شکست دینے کے بعد خلیات میں واضح اور طویل المعیاد تبدیلیوں کو شناخت کرنے کے قابل ہوئے۔ اس سے یہ بھی ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ اس بیماری سے بہت زیادہ بیمار افراد میں خون کی شریانوں کی بندش اور کلاٹس کا خطرہ کیوں بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح مریض کے جسم میں آکسیجن کی منتقلی کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے۔


نتائج سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ لانگ کووڈ کے مریضوں مدافعتی خلیات صحت مند افراد کے مقابلے میں 'نرم' ہوجاتے ہیں جو ضرورت سے زیادہ مدافعتی ردعمل کا عندیہ ہے۔ محققین نے بتایا کہ ہمیں مدافعتی خلیات میں سائٹوسکیلٹن کا شبہ ہے جو اکثر خلیات کے افعال میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ مجموعی طور پر بیماری کو شکست دینے کے 7 ماہ بعد بھی لانگ کووڈ کے مریضوں میں خون کے خلیات بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

محققین نے بتایا کہ اگرچہ کچھ مریضوں کے خلیات میں آنے والی تبدیلیاں اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد معمول پر آجاتی ہیں مگر ایسے مریض بھی ہیں جن کا تسلسل بیماری کو شکست دینے کے کئی ماہ بعد بھی برقرار رہتا ہے جو جسم میں کووڈ کے طویل المعیاد اثرات کا ثبوت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔