’بلیک ہول‘ کائنات کی سمجھ کی تاریخ (ساتویں قسط)...وصی حیدر

آئنسٹائین کی تھیوری یہ بھی بتاتی ہے کہ وقت کی رفتار بھی کشش سے اثر انداز ہوتی ہے۔ زیادہ کشش میں وقت کی رفتار مدھم ہو جاتی ہے۔ یہ پیشن گوئی بھی تجربہ سے صحیح ثابت ہو چکی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وصی حیدر

اوپنہائمر کے 1939 تحقیقاتی مضمون کے بعد جو تصویر ابھر کر آئی وہ اس طرح ہے۔ جب سورج کے وزن سے دو گنے سے زیادہ بھاری ستارے میں اندر گرمی پیدا کرنے کا ایندھن ختم ہوجاتا ہے تو وہ گرویوٹیشنل کشش کی وجہ سے سکڑنا شروع ہوجاتا ہے اور اس کو اس سکڑنے سے روکنے کی کوئی بھی قوت کارگر نہیں ہوتی اور اس ستارہ کی Density حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس ستارہ پر کشش اتنی زیادہ ہوجائے گی کہ کوئی چیز اس ستارہ سے باہر نہیں نکل سکتی اور کائنات مہں اس کے آس پاس کے مادہ کو اپنی طرف کھینچ کر ہضم کر لیتا ہے۔ آئنسٹائین کی تھیوری کی یہ بھی پیشن گوئی صحیح ہوچکی ہے کہ مادہ کی گرویوٹیشنل کشش کی وجہ سے آس پاس کی کائنات میں گھماؤ پیدا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کیف کی گہرائی یعنی روشنی کا راستہ بھی اس کی وجہ سے سیدھی لائین میں نہیں ہوگا۔ یعنی بلیک ہول کی انتہا سے زیادہ کشش کی وجہ سے روشنی کا راستہ اتنا زیادہ مڑ جائے گا کہ وہ بلیک ہول سے باہر نہیں نکل پائے گی اور اسی وجہ سے اس ستارہ کو بلیک ہول کہتے ہیں کیونکہ اس کی طرف کسی بھی طرح کا مادہ یا روشنی جاکر پھر باہر نہیں نکل سکتی۔


آئنسٹائین کی تھیوری یہ بھی بتاتی ہے کہ وقت کی رفتار بھی کشش سے اثر انداز ہوتی ہے۔ زیادہ کشش میں وقت کی رفتار مدھم ہو جاتی ہے۔ یہ پیشن گوئی بھی تجربہ سے صحیح ثابت ہو چکی ہے۔ بلیک ہول کی لامحدود کشش ہونے کی وجہ سے وقت تھم جائے گا۔ بلیک ہول کے باہر جس حد تک روشنی اندر ہی رہے گی وہ دوری Event Horizon کہلاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم باہر سے کوئی روشنی کی کرن ایونت ہوریژن کے پاس بھیجیں تو وہ مڑے ہوئے کائنائتی راستہ پر چل کر ستارہ کے پیچھے گھوم کر ہماری طرف لوٹ آئے گی۔

1960 کے بعد بلیک ہول سے مطالق تحقیقات میں بہت تیزی آئی۔ آئنسٹائین کی تھیوری کے استعمال سے بلیک ہول کی بہت ساری خصوصیات معلوم ہوئیں اور مختلف نئی دوربینوں کے ذریعہ بلیک ہول کو تجربہ سے کھوجنے کی کوششیں ہونے لگیں۔ ان تحقیقات میں شامل سائنسدانوں میں خاص طور سے نمایاں نام اسٹیفن ہاکنگ، راجر پیزور، ورنراسرائیل، رائے کر، برنڈن کارٹر اور ڈیوڈ رابنسن کے نام اہم ہیں۔


بلیک ہول کا موضوع سائنسی تحقیقات کی تاریخ میں ان چنندہ موضوع میں سے ہے جس کے بارے میں اتنے تحقیقاتی مقالہ لکھے گئے جبکہ اس کی تجرباتی دریافت ابھی سو سالوں کی محنت کے بعد ہی کامیاب ہو پائی ہے۔ 1967 میں کیمبرج یونیورسٹی کی فلکیاتی تجربہ گاہ سے جوسلین بیل نے یہ اعلان کیا کہ انہوں نے چار ایسے ستاروں کو دریافت کیا ہے جن سے رک رک کر کرویڈیو لہریں (Radis Waves) آرہی ہیں انہوں نے ان کا نام LGM 1-4 (چھوٹا ہرا آدمی) دیا۔ بعد کی تحقیقات سے یہ انکشاف ہوا کہ اصل میں یہ بہت تیزی سے گھومتے ہوئے نیوٹران اسٹار ہیں جن کا ریڈیس تقریباً 10 کلو میڑ ہے۔ اس دریافت سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی بڑا ستارہ سکڑ کر اتنا چھوٹا ہو سکتا ہے تو پھر اور چھوٹا بھی ہوکر بلیک بھی ممکن ہے اور پھر بلیک ہول کی تلاش کرنے کی کوشش تیز ہوئیں۔

بلیک ہول کو دیکھ پانا اس لئے بھی بہت مشکل ہے کیونکہ اس سے کسی بھی طرح کی روشنی نہیں نکل پاتی ہے۔ اس کی تلاش بالکل ایسے ہی جیسے کوئلے کی کوٹھری میں ایک کالی بلی کی تلاش۔ لیکن خوش قسمتی سے جیسا کہ جان مشیل نے اپنے 1783 کے مضمون میں لکھا تھا کہ بلیک ہول باوجود دکھائی نہ دینے کی اپنی انتہا سے زیادہ گرویوٹیشنل قوت کی وجہ سے آس پاس کے ستاروں پر اثر کی وجہ سے دیکھا جاسکتا ہے۔


فلکیاتی سائنسدانوں نے ایسے کئی ستارے کھوج لیے ہیں جن میں دو ستارے ایک دوسرے کے گرد گرویوٹیشنل قوت کی وجہ سے چکر لگا رہے ہیں اور ان میں سے ایک روشن ہے اور دوسرے سے کسی بھی طرح کی روشنی نہیں آرہی ہے۔ اس تحقیقات سے یہ قیاس لگایا جاتا ہے کہ شائد نہ دکھائی دینے والا ستارہ بلیک ہول ہے۔ اسی طرح کا ایک ستارہ سگنس XI ہے۔ اس ستارہ سے بہت قوت کی X-ray لہریں آرہی ہیں۔ اس کی یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ آس پاس کا مادہ تیزی سے گرویوٹیشنل کشش کی وجہ سے بلیک ہول میں ضم ہوتا جارہا ہے۔ تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کہ سگنس X1 کا ساتھی ستارہ کے وزن ہمارے سورج کے وزن سے تقریباً چھ گنا زیادہ ہے جو چندر شیکھر حد سے بہت زیادہ ہے اس لئے اس کے بہت امکان ہیں کہ ستارہ بلیک ہول ہے۔

ان ستاروں کے علاوہ زیادہ تر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ بہت ساری کہکشاؤں اور خود ہماری کہکشاؤں کے سینٹر پر بلیک ہول ہے۔ ان کو دیکھ پانا جب ہی ممکن ہوگا جب ان کے آس پاس کا مادہ بہت زیادہ روشن ہو اور اس روشنی کو ہم اپنی دوربینوں کے ذریعہ دیکھ پائیں۔ بلیک ہول کے ہمارے بہت پاس ہونے کا کوئی امکان نہیں اس لئے ہم کو اپنی دوربینوں کی قوت کو بہت بڑھانا ہوگا تاکہ بہت دور کے ستاروں کو ہم صاف طور پر دیکھ کر تجزیہ کر کے کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں۔


یہی کمال فلکیاتی سائنسدانوں نے ابھی حال میں کر دکھایا اور اب ہم پہلی بار بلیک ہول کی تصویر لینے میں کامیاب ہو گئے اس حیرت انگیز کامیابی کی کچھ تفصیل اگلی قسط میں ملاحظہ کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 May 2019, 8:10 PM