’بلیک ہول‘ کائنات کی سمجھ کی تاریخ (چھٹی قسط) 

بلیک ہول کی اس سحر آمیز تصویر حاصل ہونے کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر یہ بلیک ہول کیا ہوتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وصی حیدر

پچھلے ہفتہ (19 اپریل 2019) کو فلکیاتی تجرباتی سائنسدانوں نے وہ کرشمہ کر دکھایا جس کو ابھی کچھ عرصہ تک لوگ ناممکن سمجھتے تھے۔ ایک کہکشاں ایم 87 کے سینٹر پر پہلی ’بلیک ہول‘ کی تصویر لینے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ سائنسی کاوشوں کی اس بڑی کامیابی نے یہ بات پھر ثابت کردی کہ کائنات بیجان نہیں ہے اور اس میں مستقل تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور ان کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ارسطو سے لے کر ابتک تقریباً تین ہزار سال کا سفر اس بات کا گواہ ہے کہ کائناتی تحقیقات کا سفر صحیح راستوں پر ہے اور ہم ہر کائنات میں ہونے والے اس مسلسل رقص کو سمجھنے میں کامیابی ہیں۔

بلیک ہول کی اس سحر آمیز تصویر حاصل ہونے کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر یہ بلیک ہول کیا ہوتا ہے۔

بلیک ہول لفظ کا استعمال سب سے پہلے شائد ایک امریکی سائنسداں جان وھیلر نے کائنات میں ہونے والے تقریباً دو سو پرانے قیاس کے لئے استعمال کیا۔ اس وقت روشنی کے بارے میں دو طرح کی سمجھ تھی۔ نیوٹن کا ماننا تھا کہ روشنی چھوٹے چھوٹے پارٹیکل (Corpuscles) کی شکل میں چلتی ہے۔ دوسری سمجھ (Huygens) پر تھی روشنی لہروں کی طرح چلتی ہے بالکل اسی طرح جیسے پانی میں لہریں چلتی ہیں۔ ہم کو اب قوانٹن قوانین کی مدد سے یہ معلوم ہے کہ روشنی میں دونوں طرح کی خصوصیت (Wave–particle duality) ہیں۔


اگر ہم روشنی کو لہروں کی شکل میں سوچیں تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ گرویوٹیشنل قوت کا اس پر کیا اثر ہوگا لیکن اگر روشنی پارٹیکل کی شکل میں چلتی ہے تو اس پر گرویوٹیشنل قوت بالکل اسی طرح کام کرے گی جیسے کسی گیند پر یا سورج کے گرد گھومنے والے سیاروں پر اثر کرتی ہے۔ اس سمجھ کو استعمال کرتے ہوئے کیمبرج یونیورسٹی کے ایک سائنسداں جان مچیل کا 1783 میں ایک تحقیقاتی مقالہ (Research Paper) لندن کی رائیل سوسائٹی کے رسالہ میں چھپا۔ اس مضمون میں انہوں نے یہ لکھا کہ ایسا ستارہ جس میں بہت زیادہ مادہ ہوگا وہاں پر گرویوٹیشنل کشش اتنی زیادہ ہوسکتی ہے کہ روشنی بھی اس ستارہ سے باہر نہیں نکل پائے گی۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ کائنات میں اس طرح کے کئی ستارہ ہوں گے جن کو ہم نہیں دیکھ پائیں گے لیکن ان کی غیر معمولی زیادہ گرویوٹیشنل کشش کو کئی طرح سے محسوس کر پائیں گے۔

اسی طرح کی تجویز فرانس کے مشہور سائنسداں لاپلاس نے بھی دی لیکن شائد اس کو ناممکن سمجھتے ہوئے اپنی مشہور کتاب The System of the world کے تیسرے ایڈیشن میں نہیں لکھا۔

در اصل یہ نامناسب ہے کہ ہم نیوٹن کی گرویوٹیشن ٹھیوری کو روشنی کے لئے ویسے ہی استعمال کریں جیسے زمین پر گرتی اور چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔ جب ہم کسی چیز کو اوپر کی طرف پھیکتے ہیں تو اس کی رفتار کم ہوتی جاتی ہے اور پھر وہ زمین کی کشش کی وجہ سے واپس گرنا شروع کردیتی ہے۔ لیکن روشنی کی رفتار میں تو کسی بھی چیز سے تبدیلی نہیں ہوتی ہے اس لئے وہ تو بغیر کسی تبدیلی کے ہمیشہ اسی رفتار سے چلتی جائے گی۔ روشنی پر گرویوٹیشنل کا کیا اثر ہوگا اس کی صحیح سمجھ تو 1915 میں آئینسٹائین کی جنرل رلٹیوٹی کے بعد ہی صاف ہوئی اور اس کے کافی عرصہ کے بعد اس کی تھیوری کے بھاری بڑے ستاروں پر ہونے والے اثرات سمجھ میں آنے شروع ہوئے۔


آئنسٹائین کی گرویوٹیشن کی تھیوری کی مختلف پیشین گوئیاں پچھلے 100 سالوں میں انگنت تجربات میں صحیح ثابت ہوچکی ہے۔ اس تھیوری نے کائنات اور وقت کی سینکڑوں سالوں کی سمجھ کو بدل دیا۔ زیادہ تر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ علم طبیعات کی سب سے زیادہ اہم اور خوبصورت تھیوری ہے۔ بلیک ہول کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ستاروں کی زندگی کی مختلف منزلوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

ستارہ کی زندگی کی شروعات کائنات میں موجود گیس (جو زیادہ تر ہائڈروجن ہے) کے گرویوٹیشنل کشش کی وجہ سے اکٹھا ہوکر سکڑنے سے ہوتی ہے۔ جب یہ بہت ساری گیس سکڑنا شروع ہوتی ہے تو اس میں موجود گیس کے ایٹم آپس میں زیادہ ٹکرا کر گرمی پیدا کرتے ہیں۔ اس گیس کا درجہ حرارت بڑھتے اتنا ہوجاتا ہے کہ پھر اس کے ایٹم صرف ٹکڑے کر الگ نہیں رہتے بلکہ ہائڈروجن (چار) مل کر ہیبلم (Helium) کا نیوکلیس بناتے ہیں اور اس عمل میں بہت زیادہ قوت اورگرمی نکلتی ہے۔ ہائڈروجن کے ایٹم کے ملنے کے بعد ہیلیم کا بننا ہی ہائیڈروجن بم کہلاتا ہے۔ یعنی اب اس ستارہ میں سینکڑوں ہائڈروجن بم پھٹنا شروع ہوجاتے ہیں اور اس عمل میں نکلنے والی بے تہاشہ گرمی کی وجہ سے ستارہ چمکنے لگتا ہے۔ تجربہ گاہوں میں ہائڈروجن بم کی تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کہ اس کے لئے تقریباً 10 کروڑ ڈگری درج حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی رات میں آسمان میں چمکنے والے ستارہ جو ہماری بہت ہی دلکش نظموں اور غزلوں کا حصہ ہیں بہت ہی زیادہ گرم ہیں اور ان میں ہزاروں ہائڈروجن بم پھٹ رہے ہیں۔ ان کی اس چمک کا راز کروڑوں ڈگری درجہ حرارت ہے۔


ستاروں میں اندر پیدا ہونے والی اس گرمی کی وجہ سے باہر کی طرف دباؤ پیدا ہوتا ہے جو گرویوٹیشنل دباؤ کے خلاف کام کرتا ہے اور ستارہ کو اور زیادہ سکڑنے سے روکتا ہے اور اس طرح ان دو قوتوں کے بیچ ایک توازن کچھ عرصہ کے لئے بنا رہتا ہے جب تک کہ ستارہ میں ہائڈروجن موجود ہے جو کہ ہائڈروجن بم کا ایندھن ہے۔ اور آخر کار جب ستارہ کے اندر ان بموں کے بننے کا ایندھن ختم ہوجاتا ہے تو یہ ستارہ اندر سے ٹھنڈا ہوکر سکڑنے لگتا ہے۔ اندازہ یہ کہ سورج (جو ہماری زمین پر ہر طرح کی زندگی کا سرچشمہ ہے) میں ابھی تقریباً 5 بلین سال کا ایندھن ہے یعنی یہ اتنے سالوں اور چمکتا رہے گا۔ ایندھن کا ختم ہونا ستاروں کی زندگی کے ایک حصہ کا خاتمہ ہے۔ اور پھر اب اس ستارہ کی دوسری شکل میں ایک نئی زندگی شروع ہوگی اس کا ذکر نیچے میں ہوگا۔ اس نئی زندگی کی کیا شکل ہوگی یہ اس میں موجود مادہ کی تعداد پر منحصر ہے۔

1928 میں ایک نوجوان ہندوستانی طالب رلم چندر شیکھر سبرامنیم پانی کے جہاز پر انگلستان کے سفر پر کیمبرج یونیورسٹی میں مشہور فلکیاتی سائنسدان ارتھر ایڈن گسٹن کے ساتھ کام کرنے روانہ ہوا۔


ایڈن گسٹن اس زمانے میں آئنسٹائین کی گرویوٹیشن تھیوری کے ماہر مانے جاتے تھے۔ یہ قصہ مشہور ہے کہ کسی اخبار کے رپورٹر نے ایڈن گسٹن سے یہ کہا کہ کیا یہ صحیح مشہور ہے کہ آپ کے علاوہ دو اور سائنسداں آئنسٹائین کی اس تھیوری کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔اس پر ایڈن گیسٹن نے جواب دیا کہ مجھے تعجب ہے کہ میرے اورآئنسٹائین کے علاوہ بھی کوئی اس تھیوری کو سمجھتا ہے۔

ٹھنڈا ہوتا کتنا بڑا ستارہ اپنے آپ کو گرویوٹیشنل کشش کی وجہ سے انتہا سے زیادہ سکڑنے کو روک پائے گا۔ اپنے سفر کے دوران چندر شیکھر اس مسئلہ کو حل کرنے میں لگے رہے۔ انہوں نے یہ دیکھا کہ جب ستارہ میں ہائڈروجن بم کا ایندھن ختم ہوجائے گا اور وہ ٹھنڈا ہوکر سکڑنے لگے گا تو اس کا حجم کم ہونے کی وجہ سے مادہ ٹکڑے (Particles) ایک دوسرے کے بہت پاس آجائیں گے۔ لیکن اسی دوران معلوم ہوا کہ قوانٹم قوانین میں خاص طور سے ایک حیرت انگیز قانون پاؤلی (L. Pauli 1900-1958) پرنسپل کے نام سے مشہور ہے۔ اس قانون کی اہمیت کی وجہ سے پاؤلی کو 1945 میں نوبل انعام سے نوازہ گیا۔ یہ قانون ہم کو یہ بتاتا ہے کہ کوئی بھی دو فرمیان Fermion) مثلاً الکٹران، پروٹان اور نیو ٹران وغیرہ) ایسے نہیں ہوسکتے کہ وہ ایک ہی جگہ پر ہوں اور اس کی رفتار بھی ایک جیسی ہو۔ یعنی یہ بارٹیکل اگر کسی وجہ سے بہت پاس ہوں گے تو ان کی رفتار میں کافی فرق ہوگا۔ اس کی وجہ سے مادہ کے یہ ٹکڑے (Particles) ایک دوسرے سے دور جانے پر مجبور ہوں گے اور اس کا یہ اثر ہوگا کہ ستارہ بڑا ہونے لگے گا۔ یعنی پاؤلی قانون ستارہ کو سکڑنے سے اب ویسے ہی روکے گا جیسے پہلے ستارہ کے اندر ہونے والی گرمی روک رہی تھی۔ ان دونوں قوتوں ی وجہ سے اس ستارہ کی زندگی میں ایک طرح کا توازن کچھ وقت تک بنا رہے گا۔ چندر شیکھر نے غور کیا کہ چونکہ رفتار کی حد روشنی کی رفتار ہے اس لئے پاؤلی قانون کی وجہ سے کشش کے خلاف بھی کام کرنے کی حد ہوگی۔ اس لئے اگر ستارہ بڑا ہے تو پاؤلی کا قانون ستارہ کو زیادہ گرویوٹیشنل کشش کی وجہ سے سکڑنے کو نہیں روک پائے گا۔ اس نے ریاضیات کو استعمال کرکے یہ معلوم کیا کہ اگر ستارہ میں کل مادہ ہمارے سورج کے مادہ کا ڈیڑھ گنا ہوگا تو یہ ستارہ سکڑتا ہی جائے گا۔ مادہ کی یہ حد چندر شیکھر حد کے نام سے مشہور ہے۔ اس دریافت کے ستارہ کی زندگی کے امکانات پر بہت ہی اہم اثر ہوگا۔


اگر ستارہ کا وزن چندر شیکھر حد سے کچھ کم ہے تو یہ ستارہ کچھ عرصہ سکڑنے کے بعد گرم ہوکر چمکنے لگے گا اور اس میں موجود الکٹران کی وجہ پاؤلی قانون زیادہ سکڑنے کو روک کر ایک توازن بنا دے گا۔ ستارہ کی گرمی کی وجہ سے چمکنے والی اس چیز کو چھوٹا سفید (White Dwarf) کہتے ہیں۔ اب آسمان میں کئی اس طرح کے تاروں کی نشاندہی ہوچکی ہے۔ سب سے پہلے اس طرح کا ستارہ Sirius کے گرد چکر لگا رہا ہے اور آسمان میں سب سے زیادہ چمک دار ہے۔ ستارہ کی زندگی کا یہ رخ کچھ عرصہ رہے گا اور پھر یہ دھیرے دھیرے ٹھنڈا ہو کر گل ہو جائے گا۔

ان تحقیقات کے بعد ہی یہ احساس ہوا کہ ستارہ کی زندگی کا ایک اور لیکن فرق رخ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر ستارہ کا وزن ہمارے سورج کے وزن کے دو گنے سے کچھ کم ہو تو یہ اور سکڑے گا اور اس میں موجود الکٹران اور پروٹان مل کر نیوٹران بنا دیں گے اور اس ستارہ میں زیادہ تر نیوٹران ہوں گے جن کے بیچ برقی تناؤ (Repulsion) نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے یہ تارہ اور سکڑے گا اور اس کا ریڈیسن تقریباً 15 کلو میٹر ہوکر تھم جائے گا اور اس طرح کے ستارہ کو نیوٹران تارہ کہتے ہیں۔ اس تارہ کی Density اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اس کے مادہ کا ایک چمچہ کا وزن پورے ہمالیہ پہاڑ کے برابر ہوگا۔ اور اس میں گرویوٹیشنل سکڑنے کی قوت اور نیوٹران پر لگنے والے پاؤلی پرنسپل کی وجہ سے پھیلنے کی قوت میں توازن ہونے کی وجہ سے نیوٹران ستارہ اس حالت میں رہتا ہے۔


چندر شیکھر نے یہ پایا جب ان ستاروں جن کا وزن اس حد (ہمارے سورج کے وزن کا دوگنا یا زیادہ) سے زیادہ ہو ان کی زندگی کے بہت گمبھیر اور چوکانے والے نتائج تھے۔ جب ان ستاروں کے اندر ہائڈروجن بم کا ایندھن ختم ہوگا تو ان کو گرویوٹیشنل قوت کی وجہ سے سکڑنے میں پاؤلی قوت ناکام ہوگی اور اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ یہ ستارہ وقت کے ساتھ سکڑتا ہی جائے گا اور اس کے پاس گرویوٹیشنل انتہا سے زیادہ ہوجائے گی جس کے نتائج بہت ہی چوکانے والے ہوں گے، اسی طرح کے ستارہ کو اب ہم بلیک ہول کہتے ہیں۔ یہ ستارہ سکڑ کر اس میں سارہ مادہ ایک نقطہ پر جمع ہوجائے گا۔

چندر شیکھر کے نتائج ایڈن گیٹس کے قریں قیاس سے باہر چونکانے والے تھے۔ ان کے علاوہ اور سائنسداں بھی اس بات کو ماننے کو تیار نہیں تھے کہ ستارہ کا سارا مادہ ایک نقطہ پر جمع ہوجائے گا اور وہاں پر گرویوٹیشنل کشش انتہا سے زیادہ ہو جائے گی۔ حد تو یہ کہ اس وقت آئنسٹائین اپنی تھیوری کے ان نتائج کو ماننے کو تیار نہیں تھے اور انہوں نے اس سلسلے میں ایک تحقیقاتی مضمون بھی لکھا۔


ایڈن گٹس کے علاوہ تمام اور فلکیاتی سائنسدانوں کی حوصلہ شکنی کی وجہ سے چندر شیکھر نے اپنی تحقیقات کا رخ اور مسئلوں کی طرف موڑ دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب 1983 میں چندر شیکھر کو ان کی تحقیقات کی اہمیت پر نوبل انعام سے نوازہ گیا تو ان کے اس کام کو خاص طور سے سراہا گیا۔

اس طرح کے بڑے ستارہ کا مستقبل کیا ہوگا اس مسئلہ کو آئنسٹائین کی گرویوٹیشنل تھیوری کی ریاضیات کے تفصیلی استعمال کے بعد 1939 میں ایک ہونہار نوجوان امریکی سائنسداں رابرٹ اوپنہائمر نے اپنے ایک مشہور مضمون میں کیا۔ اس میں اس نے یہ بھی ذکر کیا اور اس طرح کے بلیک ہول کو اس وقت کی دوربینوں کی مدد سے دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ پھر دوسری جنگ عظیم شروع ہونے کی وجہ سارے سائنسدان اس مسئلہ کو بھول کر جنگ سے مطابق کاموں میں مصروف ہوگئے۔ امریکا میں اوپنہائمر کے ساتھ سیکڑوں سائنسدان ایٹم بم بنانے میں مصروف ہوگئے۔


1960 کے آس پاس جب دنیا میں بہت ساری نئی نئی دوربین استعمال ہونے لگیں تو فلکیاتی تحقیقاتی میں دلچسپیاں بڑھیں اور لوگوں نے اوپنہائمر کےکام پر دوبارہ غور کرنا شروع کیا۔

بلیک ہول بڑے ستاروں کی زندگی کی آخری منزل ہے اور فلکیاتی تحقیقات اور سائنسی سمجھ کا کڑا امتحان۔ اس کی باقی کہانی اگلی قسط میں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔