رمضان اور خواتین... صبیحہ جمال صالحاتی

رمضان المبارک میں روزہ، نماز، تراویح، صدقہ و خیرات، دعا و اذکار اور دیگر اعمال صالحہ جہاں مردوں کے لیے ہیں وہیں عورتوں کے لیے بھی ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>مسلم خواتین، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

مسلم خواتین، تصویر آئی اے این ایس

user

صبیحہ جمال صالحاتی

رمضان کا مبارک مہینہ ہم پر سایہ فگن ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اپنے جوبن پر ہیں۔ یوں تو رب العالمین اپنی مخلوقات پر اپنی رحمتوں کی بارش سال کے بارہ مہینے ہی نازل فرماتا ہے، لیکن رمضان کے مبارک مہینہ میں اس کی رحمتوں اور برکتوں کی شان ہی نرالی ہے۔ لیکن اللہ کی یہ رحمتیں اس ماہ میں بھی ان لوگوں کا مقدر بنتی ہیں جو اس ماہ سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ رحمت و برکت سے بھرپور اس ماہ کا اللہ کے نیک بندوں کو شدت سے انتظار رہتا ہے۔ کیونکہ اس ماہ میں نیکی اور تقویٰ کی ایک الگ ہی فضا بنتی ہے۔

رمضان المبارک میں روزہ، نماز، تراویح، صدقہ و خیرات، دعا و اذکار اور دیگر اعمال صالحہ جہاں مردوں کے لیے ہیں وہیں عورتوں کے لیے بھی ہیں۔ ان سب نیک اعمال کا ثواب جس طرح مردوں کو ملے گا اسی طرح خواتین کو بھی ضرور ملے گا۔ لیکن عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض گھرانوں میں خواتین رمضان کے حوالے سے عبادت کے لیے اتنی مستعد نہیں ہوتیں جتنی دوسرے گھریلو کاموں کے لیے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ رمضان میں سحری اور افطار کی اضافی ذمہ داریوں کو ہی وہ اپنے لیے کافی سمجھتی ہیں۔ اور اسی کو ثواب کا ذریعہ سمجھ کر اس میں منہمک رہتی ہیں۔ خواتین کو اس غلط فہمی، غفلت اور ناعاقبت اندیشی سے نکالنے کے لیے زیر نظر مضمون میں کچھ اہم نکات کی جانب توجہ دلانی مقصود ہے۔


خواتین کو چاہیے کہ رمضان کی آمد سے قبل ہی اپنی نیت کو درست اور خالص کر لیں۔ کیونکہ اعمال کی قبولیت اور ان پر اجر و ثواب کا دار و مدار صرف اور صرف نیت پر ہے۔ خصوصاً روزے کا تعلق نیت کے ساتھ بہت گہرا ہے۔ کیونکہ روزہ ہی صرف ایک ایسی عبادت ہے جس کا علم روزہ دار کے علاوہ صرف اللہ کو ہوتا ہے۔ اس لیے روزے جیسی عظیم عبادت کو صرف خاندانی وراثت کے طور پر ادا نہیں کرنا چاہیے۔

بعض لوگ نماز اور روزہ جیسی عبادات اپنے آبا و اجداد کی عادت کے طور پر ادا کرتے ہیں وہ روزہ اسی لیے رکھتے ہیں کہ لوگ روزہ رکھتے ہیں۔ وہ حج اس لیے کرتے ہیں کہ لوگ حج کرتے ہیں۔ اللہ کی بندگی میں یہ تقلید کافی نہیں ہے۔ ہمارے لیے واجب ہے کہ ہم اللہ کی رضا کے لیے بندگی کا شعور رکھتے ہوئے روزے رکھیں۔ سحری کھاتے وقت اس بات کی بھی نیت کریں کہ اس سے جو طاقت اور توانائی آئے گی اسے اللہ کی اطاعت کے کاموں میں صرف کریں گے۔ اس طرح روزہ دار خواتین اور مرد سب کا ہر لمحہ رضائے الٰہی کا مظہر بن جائے گا اور تمام نیک اعمال اللہ کے قرب کا ذریعہ بن جائیں گے۔


رمضان کی عظمت چونکہ قرآن کی وجہ سے ہے اسی لیے ہم پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اس ماہ میں ہم اپنے آپ کو قرآن سے پوری طرح جوڑ دیں۔ اس کے لیے ہمیں ترتیب یہ بنانی ہوگی کہ ہم کچھ وقت قرآن کی تلاوت میں لگائیں۔ کچھ وقت اس کے مفہوم اور معانی کو سمجھنے میں لگائیں اور کچھ وقت قرآن کی کچھ آیات یا سورتوں کو یاد کرنے کے لیے مخصوص کریں۔ اس کے لیے خواتین اپنے گھر کے کاموں کے حساب سے وقت متعین کر سکتی ہیں۔ اگر ایک نشست میں بیٹھ کر تلاوت کا وقت نہیں نکال سکتیں تو ہر نماز کے بعد کم از کم دو صفحہ کی تلاوت کر لیں۔ اسی طرح اگر قرآن کا ترجمہ اور تفسیر خود پڑھنے کا موقع میسر نہ ہو تو کسی گروپ کے ساتھ جڑ کر ان کے پروگرام میں قرآن کی تفسیر اور تشریح سننے کی کوشش کریں۔ آج کل الحمدللہ اس طرح کے بہت سے آن لائن پروگرام چل رہے ہیں۔ اسی طرح رات کو سوتے وقت قرآن کی کچھ سورتیں یاد کرنے کی کوشش کریں اور روزانہ دو تین آیات یاد کر لیا کریں۔ اس طرح کا روٹین بنانے سے ان شاء اللہ آپ کا بہت سارا وقت قرآن کے ساتھ گزرے گا جو سب عبادت میں شمار ہوگا۔

اکثر خواتین روزہ تو رکھ لیتی ہیں مگر سحری اور افطار کے چکر میں اپنا بہت سا قیمتی وقت غیر ضروری کاموں میں گزار دیتی ہیں اور خصوصاً افطار کے وقت کی دعا سے محرومی کا شکار ہوتی ہیں۔ جبکہ روزہ دار کی افطار کے وقت مانگی گئی دعا رد نہیں ہوتی۔ اسی طرح بعض اوقات گھر کے کاموں میں نمازوں کو وقت پر ادا نہ کر کے ٹال مٹول میں ان کو مکروہ وقت میں ادا کرتی ہیں، جبکہ فرض نماز کا قضا کرنا تو سخت ترین گناہ ہے۔ اور نماز کو ٹال مٹول کر ادا کرنا بھی منافق کی علامت ہے۔


اسی طرح بعض خواتین تراویح کی ادائیگی بھی ضروری نہیں سمجھتیں۔ جبکہ رمضان کے روزے جہاں فرض ہیں وہیں احادیث میں قیام الیل یعنی تراویح کو مغفرت کا ذریعہ بتایا گیا۔ بعض خواتین کو غلط فہمی ہے کہ تراویح اگر ایک بار شروع کریں تو پھر اس کو پورے ماہ ادا کرنا ہے۔ اگر درمیان اپنے شرعی عذر کی وجہ سے تراویح ادا نہیں کی تو پھر گناہ ہوگا۔ اس لیے بہت سی خواتین اور بچیاں اسی وجہ سے تراویح شروع ہی نہیں کرتیں۔ اس لیے اس غلط فہمی کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح اور نمازیں شرعی عذر کی وجہ سے نہیں پڑھی جاتیں، اسی طرح تراویح بھی ان ایام میں چھوڑ سکتے ہیں اور عذر ختم ہونے کے بعد دوبارہ شروع کر دیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ نوافل کے ذریعہ بندہ اللہ سے قریب ہوتا ہے۔ تو زیادہ سے زیادہ نوافل کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔

اللہ کا ذکر کثرت سے کرنا، اللہ کو یاد کرنا اور خصوصاً اللہ سے دعائیں مانگنا اس ماہ میں مبارک عمل ہے۔ اس کے لیے خواتین کو چاہیے کہ وہ گھر کے کام کاج کے دوران دعا استغفار اور تسبیح و تسہیل کو اپنا معمول بنا لیں تاکہ گھریلو کام بھی ہمارے لیے عبادت بن جائیں۔

اسی طرح ہمدردی، مواسات، غریبوں کی خبر گیری، خصوصاً اپنے عزیزوں میں جو ضرورت مند ہیں ان کی مدد کرنا یہ تمام نیکی کے کام اس ماہ میں بڑھ چڑھ کر کرنا چاہیے۔

یہ چند طریقے اگر ہم خواتین اپنائیں گی تو ان شاء اللہ اس سال کے رمضان سے بہت حد تک فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔