یکساں سول کوڈ معاملہ: ’اتراکھنڈ حکومت قانون میں کیا ترمیم کرنے جا رہی، اس کی مکمل وضاحت کرے‘، ہائی کورٹ کا حکم
اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے خلاف داخل تمام عرضداشتوں کو یکجا کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

نئی دہلی: اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کے خلاف صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل کی گئی اہم پٹیشن پر آج اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں سماعت عمل میں آئی۔ سماعت کے دوران جمعیۃ علماء کی جانب سے پیش ہوئے ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ہماری پٹیشن کے خلاف داخل حلف نامہ کی نقل انہیں سماعت سے محض 5 منٹ پہلے فراہم کی گئی۔ وکیل نے ریاستی حکومت کے وکلاء کے اس عمل پر عدالت کے سامنے سخت اعتراض کیا اور کہا کہ 70 صفحات پر مشتمل جوابی حلف نامہ میں ریاستی حکومت نے کیا تحریر کیا ہے، اس کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی جواب دیا جا سکے گا، یا پھر بحث کی جا سکے گی۔ اس پر اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے تمام عرضی گزاروں سے کہا کہ جو حکومت نے حلف نامہ داخل کیا ہے، اسے دیکھ لیجیے، کس حد تک ترمیم کر رہی ہے، اور اس سے آپ کی شکایت کا ازالہ ہو رہا ہے یا نہیں۔ اس پر جمعیۃ علماء ہند کی وکیل نے کہا کہ ہم نے مکمل یکساں سول قانون کو ختم کرنے کے لیے پٹیشن داخل کی ہے۔
آج چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ جتنے لوگوں نے یو سی سی (یکساں سول کوڈ) کے خلاف پٹیشن داخل کی ہے، وہ ایک دوسرے کو اپنی پٹیشن شیئر کر دیں تاکہ اس سے سماعت میں آسانی ہو۔ چیف جسٹس نے ریاستی حکومت کی پیروی کرنے والے وکلاء سے کہا کہ آپ ترمیم کے بارے میں سوچ رہے ہیں، اور کس طرح کی ترمیم کرنے جا رہے ہیں اس کی صاف صاف وضاحت کریں۔ اس پر حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ تمام ترمیمات کے بارے میں ہمارے حلف نامہ میں تفصیلات موجود ہیں۔ اسی درمیان چیف جسٹس اتراکھنڈ ہائی کورٹ جسٹس جی نریندر اور جسٹس سبھاش اپادھیائے نے ریاستی حکومت کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈووکیٹ نٹراجن سے کہا کہ اگلی سماعت سے قبل ریاستی حکومت قانون میں کیا ترمیمات کرنے والی ہے، اسے واضح کرے۔ عدالت نے اس مقدمہ کی مزید سماعت 10 نومبر کو کیے جانے کا حکم جاری کیا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل کی سماعت کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے سینئر ایڈووکیٹ کپل سبل نے بنچ کے سامنے 2 اہم باتیں رکھی تھیں۔ پہلی یہ کہ لسٹ تھری انٹری 5 کے تحت کسی صوبائی حکومت کو یکساں سول کوڈ بنانے اور اسے نافذ کرنے کا اختیار نہیں ہے، یہاں تک کہ دفعہ 44 بھی کسی صوبائی حکومت کو اس طرح کی قانون سازی کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ دوسری اہم بات انہوں نے یہ کہی تھی کہ اس قانون سے شہریوں کے ان بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے جو آئین کی دفعہ 14، 19، 21 اور 25 میں دیے گئے ہیں۔
واضح ہو کہ اتراکھنڈ اسمبلی میں یکساں سول کوڈ کی منظوری کے تقریباً ایک سال بعد گزشتہ 27 جنوری 2025 کو وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں اسے نافذ کر دیا گیا ہے۔ اس طرح اتراکھنڈ ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے والی پہلی ریاست بن گئی ہے۔ جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند نے اس فیصلہ کو اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ اپنے موقف کے دفاع کے لئے جمعیۃ علماء ہند نے ملک کے سینئر وکلاء کی خدمات حاصل کی ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے آج کی قانونی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم پُرامید ہیں کہ عدالت اس معاملہ میں مثبت فیصلہ دے گی۔ اس لیے کہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ شہریوں کو آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کے سراسر خلاف ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کے قانون کے نفاذ سے شہریوں اور خاص طور پر مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی منصوبہ بند کوشش کی گئی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔