رام جنم بھومی مقدمہ: الہٰ آباد ہائی کورٹ سے ڈاکٹر عرفان سمیت 4 ملزمین کی ضمانتیں منظور

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے 18 سال کے بعد ضمانت پر ملزمین کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزمین کے اہل خانہ کے لیے بلاشبہ یہ انتہائی خوشی کی بات ہوگی۔

<div class="paragraphs"><p>الہ آباد ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

الہ آباد ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس

user

پریس ریلیز

نئی دہلی: 18 سالوں سے جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے والے چار ملزمین کو آج الہٰ آباد ہائی کورٹ نے مشروط ضمانت پر رہا کئے جانے کا حکم جاری کیا۔ سال 2018 میں الہ آباد کی خصوصی عدالت نے رام جنم بھومی (ایودھیا دہشت گردانہ حملہ) معاملے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے چار ملزمین کو عمر قید کی سزا دی تھی۔ عمر قید کی سزا ملنے کے بعد ملزمین نے جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے توسط سے نچلی عدالت کے فیصلے کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ نیز اپیلوں پر سماعت نہ ہونے کی صورت میں عدالت سے ضمانت پر رہا کیے جانے کی گزارش کی تھی۔ ملزمین ڈاکٹر محمد عرفان، محمد اسلم اور شکیل احمد نظیر احمد کی ضمانت عرضداشت پر جمعیۃ علماء کی جانب سے ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ سمیع الزماں اور ایڈوکیٹ شہزاد عالم نے بحث کی، جبکہ ملزم محمد نسیم فیروزالدین کی جانب سے ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے بحث کی۔ اسی طرح ملزم آصف اقبال کی جانب سے ایڈوکیٹ راجو لوچن شکلاء نے بحث کی۔

ملزمین ڈاکٹر محمد عرفان، محمد اسلم اور شکیل احمد نظیر احمد کی جانب سے بحث کرتے ہوئے دو رکنی بنچ کے جسٹس اشونی کمار مشراء اور جسٹس آفتاب حسین رضوی کو ایڈوکیٹ عارف علی نے بتایا کہ ملزمین گزشتہ اٹھارہ سالوں سے جیل میں مقید ہیں اور ٹرائل کورٹ کی جانب سے دی گئی عمر قید کی سزاؤں کے خلاف داخل اپیل پر سماعت التواء کا شکار ہے۔ لہذا ملزمین کو مشروط ضمانت پر رہا کیا جائے۔ ایڈوکیٹ عارف علی نے عدالت کو مزید بتایا کہ نچلی عدالت نے کمزور شواہد کی بنیاد پر ملزمین کو مجرم قرار دیا ہے جبکہ ثبوت و شواہد کا باریک بینی سے مشاہدہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ ملزمین کا اس واقعہ سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ محض شک کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔


ایڈوکیٹ عارف علی نے عدالت کو ڈاکٹر عرفان کے تعلق سے بتایا کہ استغاثہ نے ملزم کے خلاف گواہی دینے کے لیے عدالت میں 29 سرکاری گواہوں کو پیش کیا جن میں سے صرف 3 گواہوں نے مبینہ طور پر ملزم کے قبضہ سے ضبط کیے جانے والے موبائل فون کے تعلق سے گواہی دی۔ ایڈوکیٹ عارف علی نے عدالت کو بتایا کہ ملزمین کو امید ہے کہ اگر ان کی اپیل پر سماعت ہوئی تو وہ باعزت بری ہو جائیں گے، لیکن 5 سال کا وقفہ گزر جانے کے باوجود ملزمین کی اپیلوں پر سماعت نہیں ہو سکی ہے۔ لہٰذا ملزمین کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔ دفاعی وکلاء نے عدالت کو مزید بتایا کہ یو پی حکومت نے ملزمین کی سزاؤں میں تخفیف کی عرضداشت کو بھی خارج کر دیا ہے۔ لہٰذا اپیلوں پر سماعت نہ ہونے کی صورت میں ملزمین کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔ دفاعی وکلاء کے دلائل کی سماعت کے بعد سرکاری وکیل کی ملزمین کو ضمانت پر رہا کیئے جانے کی عرضداشت کی شدید مخالفت کے باوجود دو رکنی بنچ نے ملزمین کو ضمانت پر رہا کیے جانے کا حکم جاری کیا۔

واضح رہے کہ سال 2005 میں بابری مسجد رام جنم بھومی کمپلیکس پر ہونے والے دہشت گردانہ حملہ میں متعدد لوگ ہلاک ہوئے تھے جس میں مبینہ طور پر جیش محمد نامی ممنوعہ تنظیم کے ارکان کے شامل ہونے کی بات کہی گئی تھی۔ حملہ کے بعد تحقیقاتی دستوں نے متذکرہ پانچ ملزمین کو گرفتار کیا تھا اور ان کے خلاف تعزایت ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا تھا۔ اس معاملے میں کل 65 سرکاری گواہوں نے اپنے بیانات قلمبند کرائے جبکہ پانچ گواہ وہ بھی تھے جنہیں عدالت نے طلب کیا تھا۔


جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اٹھارہ سال کے بعد ضمانت پر ملزمین کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزمین کے اہل خانہ کے لیے بلاشبہ یہ انتہائی خوشی کی بات ہوگی کیونکہ ان کے لیے یہ ساعت ایک طویل انتظار کے بعد آئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مولانا مدنی نے اس امر پر سخت مایوسی کا اظہار کیا کہ 18 برس کی طویل مدت گزر جانے کے بعد بھی اس مقدمہ میں اب تک حتمی فیصلہ نہیں آ سکا۔ ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنچ کیے ہوئے بھی 5 سال گزر چکے ہیں، مگر اپیلوں پر اب تک سماعت نہیں ہو سکی۔ اس سلسلہ میں جن 5 لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں سے 4 کو الہ آباد کی خصوصی عدالت نے 2018 میں عمر قید کی سزا دی تھی۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب تک اس پر حتمی فیصلہ کی نوبت آئے گی ملزمین اپنی پوری زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے فیصلہ کے انتظار میں گزار چکے ہوں گے۔ یوں بھی دیکھا جائے تو 18 برس جیل میں گزار کر یہ لوگ ایک طرح سے عمر قید کی سزا مکمل کر چکے ہیں۔

مولانا مدنی نے کہا کہ یہ کوئی پہلی مثال نہیں ہے، اس طرح کے بیشتر مقدمات میں پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کے ذریعہ بے گناہ مسلم نوجوانوں کی زندگیوں کو تباہ کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں سے تاخیر کروائی جاتی ہے۔ مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ انسانی حقوق کی اس سنگین خلاف ورزی کے خلاف کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھتی۔ حالانکہ یہ ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے۔ دنیا کا کوئی بھی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ حتمی سزا دیے بغیر کسی ملزم کی پوری زندگی سلاخوں کے پیچھے اس طرح تباہ کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے بہت سے معاملوں میں نچلی عدالتوں سے عمر قید اور پھانسی کی سزا پائے جانے کے باوجود اعلیٰ عدالتوں سے بری ہوئے۔ اکشر دھام مندر حملہ کا معاملہ اس کی واضح مثال ہے۔ ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ وہ بے گناہ افراد جن کو دہشت گرد بنا کر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا اور جو بعد میں باعزت رہا ہوئے تو ان کی زندگی کے وہ قیمتی ماہ و سال کون واپس لوٹائے گا، جو انہوں نے بے گناہ ہوتے ہوئے بھی جیلوں میں گزارے؟ ہم مسلسل یہ مطالبہ بھی کرتے آئے ہیں کہ اس طرح کے معاملہ میں متاثرہ لوگوں کے لیے نہ صرف مناسب معاوضہ کا التزام ہونا چاہئے بلکہ پولیس اور ان تفتیشی افسران سے اس بات کی سختی سے جواب دہی بھی ہونی چاہیے کہ انہوں نے کسی بے گناہ کی زندگی سے ایسا سنگین کھلواڑ کیوں کیا؟ جبکہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے جڑا ہوا ایک اہم معاملہ ہے۔ اس لیے ہم یہ گزارش کریں گے کہ سپریم کورٹ از خود اس کا نوٹس لے اور ایک ایسا فریم ورک تیار کرے جس میں انصاف کے لیے کسی بے گناہ انسان کو اپنی پوری زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہ گزار دینی پڑے۔ اس لیے کہ انصاف میں تاخیر کا مطلب انصاف سے انکار بھی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔