ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکہ سے متعلق مقدمہ کا فیصلہ تاریخی: جمعیۃ علماء ہند
جمعیۃ نے بمبئی ہائی کورٹ کے ذریعہ 12 مسلم نوجوانوں کو 19 سال بعد دہشت گردی کے الزام سے باعزت بری کیے جانے کو بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔

عدالتی فیصلہ / آئی اے این ایس
نئی دہلی: 7/11 ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکے مقدمہ کا آج تاریخی فیصلہ بامبے ہائیکورٹ کی دو رکنی بینچ نے ظاہر کیا، 19 سالوں کے طویل انتظار کے بعد اس مقدمہ میں جبراً پھنسائے گئے مسلم نوجوانوں کو انصاف حاصل ہوا۔ عدالت نے خصوصی مکوکا عدالت کی جانب سے پانچ ملزمین احتشام قطب الدین صدیقی، کمال انصاری، فیصل عطاء الرحمن شیخ، آصف بشیر اور نوید حسین کو ملنے والی پھانسی کی سزا کو غیر قانونی قراردیا، اسی کے ساتھ ساتھ عدالت مکوکا عدالت سے سات ملزمین محمد علی شیخ، سہیل شیخ، ضمیر لطیف الرحمن، ڈاکٹر تنویر، مزمل عطاء الرحمن شیخ، ماجد شفیع، ساجد مرغوب انصاری کو ملنے والی عمر قید کی سزا کو بھی ختم کردیا یعنی کے ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں نچلی عدالت فیصلے کو غیر قانونی قراردیا اور اسے ملزمین کے حق میں تبدیل کردیا۔ بامبے ہائی کورٹ دو رکنی خصوصی بینچ جسٹس اے ایس کلور اور جسٹس شیام سی چانڈک نے آج صبج ساڑھے نو بجے فیصلہ ظاہر کیا۔ عدالت نے ملزمین کی جانب سے حاصل کیئے گئے اقبالیہ بیان کو سرے سے خارج کردیا اور اسے غیر قانونی قراردیا، اسی طرح عدالت نے سرکاری گواہان کی گواہی کو بھی قبول کرنے سے انکار کردیا۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا ارشد مدنی نے ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلہ کو انصاف کو سربلند کرنے والا ایک فیصلہ قراردیا، اور کہا کہ آج جو لوگ بے گناہ ثابت ہوئے ہیں ان کے اہل خانہ کے لئے یہ ایک بڑادن ہے، کیونکہ اس کے لئے انہیں سترہ برس تک انتظارکرنا پڑا، یہ 19 برس انہوں نے امید اور ناامیدی کی جس اندوہناک اذیت میں گزارہوں گے، ہم اس کا تصوربھی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ جمعیۃعلماء مہاراشٹرا کے لیگل سیل کی ایک اورتاریخی کامیابی ہے، کہ جب اس کے قانونی جدوجہد کے نتیجہ میں 12 ایسے لوگوں کو باعزت رہائی ملی ہے، جن میں 5 لوگوں کو پھانسی اور7 کو عمر قید کی سزا ہو چکی تھی۔ اس کے لئے ہم اپنے وکلاء کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے دن رات محنت کی اورعدالت میں ایسی مدلل بحث کی کہ استغاثہ کا ساراجھوٹ بے نقاب ہوگیا، مولانا مدنی نے کہا کہ اس فیصلہ سے ہماری اس بات کی ایک بارپھر تصدیق ہوگئی جو ہم برسوں سے کہتے آئے ہیں کہ مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں گرفتارکر کے ان کی زندگیوں کو تباہ وبربادکرنا ایک بڑے کھیل کا حصہ ہے، ایسا کرکے نہ صرف بے گناہوں کوجیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچادیا جاتاہے بلکہ اس کے ذریعہ ایک پوری قوم کو بدنام اوررسوابھی کیاجاتاہے، ہم برسوں سے یہ مطالبہ بھی کرتے آئے ہیں کہ تفتیشی ایجنسیوں اورپولس کی جواب دہی طے کی جانی چاہئے، جب تک ایسا نہیں کیاجائے گا، نہ صرف دہشت گردی بلکہ دوسرے قوانین کی آڑمیں بھی بے گناہوں کی زندگیاں اسی طرح تباہ وبربادکی جاتی رہیں گی، انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ آج جو ملک کے سیاسی حالات ہیں اس میں پولس اورایجنسیوں کے لئے مسلمان آسان ٹارگیٹ ہے،لوکل ٹرین بم دھماکہ کے اس معاملہ پر ممتازقانون داں، جمعیۃ علماء ہند کے وکیل اور اڑیسہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مرلی دھرکا تبصرہ ہے کہ اس کیس میں جان بوجھ کر جانبدارانہ تفتیش کی گئی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے معاملات میں جہاں عوامی جذبات مشتعل ہوتے ہیں میڈیا ٹرائل کے ذریعہ کسی کو بھی مجرم بنا دیا جاتا ہے، پریس کانفرنس پہلے کی جاتی ہے ثبوت بعد میں تلاش کئے جاتے ہیں جسٹس مرلی دھرکا یہ تبصرہ ملک کے قانونی سسٹم کی اندرکی ساری کہانی بیان کردیتاہے مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ کسی طرح کی جواب دہی کے فقدان کے نتیجہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس بات کی مکمل چھوٹ مل جاتی ہے کہ وہ جس کو چاہے مجرم بنادے، نہ توان کا کوئی محاسبہ ہوگااورنہ ہی اس کے لئے ان سے کسی طرح کا کوئی سوال ہی ہوگا، انہوں نے کہا کہ اس چھوٹ نے انہیں بے لگام کردیا ہے جس کی بدترین مثال یہ معاملہ ہے کہ جب انصاف کے حصول میں 19 برس کا طویل عرصہ لگ گیا بے گناہ باعزت بری بھی ہوگئے مگر ان لوگوں سے کوئی بازپرس نہیں ہوئی جنہوں نے بارہ زندگیاں بربادکیں، اس کے لئے متاثرین کو کوئی معاوضہ بھی نہیں ملے گامولانا مدنی نے کہا کہ ہم اس فیصلہ کا تہ دل سے استقبال کرتے ہیں مگر ہماری نظرمیں یہ انصاف ادھوراہے جب تک جواب دہی طے نہیں کی جائے گی اور بے گناہوں کی زندگیاں تباہ کرنے والوں کو کوئی سزانہیں دی جائے گی اس افسوس ناک سلسلہ کا خاتمہ نہیں ہوگاقانون کی آڑمیں اسی طرح بے گناہوں کی زندگیوں سے کھلواڑ ہوتارہے گااورملک کا میڈیا ایک مخصوص فرقہ کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلاکر اسے بدنام کرتارہے گا۔ مولانا مدنی نے آخرمیں کہا کہ بے قصورمسلمانوں کی زندگی سے کھلواڑکرنے والے آخرکہاں ہیں ان کے چہروں سے نقاب اٹھااب ضروری ہے، یہ صورت حال ملک میں مسلم اقلیتوں کے لئے بے حد پریشان کن ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ آج نہیں توکل حالات بدلیں گے اب وقت آگیا ہے کہ سپریم کورٹ کو اس پر از خود سو موٹو نوٹس لینا چاہئے۔ انہوں نے اس بات پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا کہ نام نہاد قومی میڈیا اکثر متعصب الکٹرانک میڈیا مسلمانوں کی گرفتاری کے وقت طوفان کھڑا کردیتا ہے اوران کے خلاف ٹرائل شروع کر دیتا ہے، جب یہی لوگ عدالت سے باعزت بری ہوتے ہیں تو میڈیا کو سانپ سونگھ جاتا ہے یہ جانبدارانہ رویہ صحافت کے پیشہ سے خیانت ہے۔
قابل ذکر ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملزمین کو فوراً جیل سے رہا کیا جائے اگر وہ کسی اور مقدمہ میں مطلوب نہیں ہیں تو یعنی کہ عدالت نے سال 2006 سے جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے والے ملزمین کی جیل سے رہائی کا راستہ صاف کردیا ہے۔ عدالت نے جیل میں انتقال کرنے والے کمال انصاری کو بھی مقدمہ سے بری کیئے جانے کا حکم جاری کیا۔ جس وقت جسٹس کلور مقدمہ کا فیصلہ پڑھ رہے تھے، پھانسی کی سزا پانے والے پانچوں ملزمین بھی بذریعہ آن لائن اسے دیکھ اور سن رہے تھے اور ان کے چہروں پر مایوسی جھلک رہی تھی لیکن جیسے فیصلہ ان کے حق میں آیا وہ ایکدم سے خوش ہوگئے اور عدالت اور ان کا دفا ع کرنے والے وکلاء کا شکریہ ادا کیا۔ سینئر ایڈوکیٹ یوگ موہت چودھری نے عدالت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج کے فیصلے سے عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا نیزقانون کی بالادستی قائم رہے گی۔ انہوں نے ملزمین کے حق میں بحث کرنے کے لیئے دفاعی وکلاء کو موقع دینے کے لیئے بھی شکریہ ادا کیا۔ یوگ چودھری نے جذباتی انداز میں کہا کہ اس پورے مقدمہ کا اگر باریک بینی سے مشاہدہ کیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ ملزمین کے خلاف جھوٹے ثبوت و شواہداکھٹا کیئے گئے تھے جس کی آج عدالت نے تصدیق کردی۔ ملزمین کے مقدمات کی پیروی جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کررہی ہے، آج کے فیصلے کا صدر جمعیۃ علماء مہاراشٹر مولانا حلیم اللہ قاسمی خیر مقدم کیا اور ملزمین کی رہائی میں دن رات محنت کرنے والے وکلاء کا شکریہ ادا کیا، اس موقع پر انہوں نے مرحوم گلزار احمد اعظمی کو بھی یاد کیا اور کہا کہ اس مقدمہ کی پیروی گلزار اعظمی ملزمین کی گرفتاری کے وقت سے کررہے تھے، ان کے انتقال کے بعد اس ذمہ داری کو ہم نے سنبھالا اور جس نہج پرگلزار اعظمی پیروی کررہے تھے اسی نہج پر پیروی کرنے کی ہم نے بھی کوشش کی اور الحمداللہ آج فیصلہ ملزمین کے حق میں آیا۔ جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی نے ملزمین کے دفاع میں ملک کے نامور کریمنل وکلاء کی خدمات حاصل کی تھی جس میں سینئر ایڈوکیٹ ایس ناگا متھو (سبکدوش جسٹس مدراس ہائی کورٹ)، سینئر ایڈوکیٹ مرلی دھر (سبکدوش چیف جسٹس اڑیسہ ہائی کورٹ)، سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن (سپریم کورٹ آف انڈیا)، ایڈوکیٹ یوگ موہت چودھری و دیگر شامل ہیں شامل ہیں، سینئر وکلاء کی معاونت کرنے کے لیئے ایڈوکیٹ عبدالوہاب خان، ایڈوکیٹ شریف،ایڈوکیٹ انصار تنبولی، ایڈوکیٹ گورو بھوانی، ایڈوکیٹ ادتیہ مہتا، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ افضل نواز، ایڈوکیٹ بلال و دیگر کو ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ واضح رہے کہ خصوصی مکوکا عدالت کے جج وائی ڈی شندے نے ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکہ کا فیصلہ سناتے ہوئے پانچ ملزمین احتشام قطب الدین صدیقی، کمال انصاری، فیصل عطاء الرحمن شیخ، آصف بشیر اور نوید حسین کو پھانسی اور 7 ملزمین محمد علی شیخ، سہیل شیخ، ضمیر لطیف الرحمن، ڈاکٹر تنویر، مزمل عطاء الرحمن شیخ، ماجد شفیع، ساجد مرغوب انصاری کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جبکہ ایک ملزم عبدالواحد دین محمد کو باعزت بری کردیا تھا۔ ممبئی کی لائف لائن سمجھی جانی والی لوکل ٹرین کے ویسٹرن لائن پر سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے تھے جس میں 80 لوگوں کی موت ہوئی تھی جبکہ سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔