مولانا محمود اسعد مدنی جمعیۃ علماء ہند کے بالاتفاق دوسری بار صدر منتخب

جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ وقف ایکٹ 2025 اوقاف کی مذہبی شناخت کے لیے سنگین خطرہ ہے اور جمعیۃ قانونی و جمہوری سطح پر اس کی بھرپور مخالفت جاری رکھے گی۔

<div class="paragraphs"><p>مجلس عاملہ کے اجلاس کا منظر</p></div>
i
user

پریس ریلیز

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کی مجلسِ عاملہ کا اہم اجلاس آج مولانا محمود اسعد مدنی، صدر جمعیۃ علماء ہند کی زیرِ صدارت بمقام مدنی ہال، آئی ٹی او، نئی دہلی منعقد ہوا، جس میں وقف ترمیمی ایکٹ 2025، غیر قانونی دراندازی کا مسلمانوں پر الزام لگانے، فلسطین امن معاہدہ اور ملک کے موجودہ حالات میں مسلم اقلیت کے عرصۂ حیات تنگ کرنے جیسے دورِ حاضر کے سلگتے ہوئے مسائل پر تفصیل سے تبادلۂ خیال ہوا۔ ساتھ ہی نئے ٹرم کے لیے جمعیۃ علماء ہند کی مرکزی صدارت کا اعلان کیا گیا۔ اجلاسِ مجلسِ عاملہ میں ملک بھر سے جمعیۃ علماء ہند کی مجلسِ عاملہ کے ارکان و مدعوئینِ خصوصی شریک ہوئے اور متعدد رپورٹیں پیش ہوئیں۔ ابتدا میں ناظمِ عمومی جمعیۃ علماء ہند مولانا محمد حکیم الدین قاسمی نے سابقہ کارروائی کی خواندگی کی۔

اجلاس میں دستورِ جمعیۃ علماء ہند کی دفعہ 52 کی رو سے نئے ٹرم کی صدارت کے لیے مولانا محمود اسعد مدنی کے نام کا متفقہ طور پر اعلان کیا گیا۔ تمام صوبوں کی مجالسِ عاملہ نے اگلے ٹرم کی صدارت کے لیے ان کے نام کی سفارش کی تھی۔ اس لیے اب اس کا اعلان کیا جاتا ہے کہ مولانا موصوف برائے ٹرم 2026-27ء جمعیۃ علماء ہند کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ صدارت کے انتخاب کے بعد اسی اجلاس میں مولانا مدنی نے دستور کے مطابق چارج بھی لیا اور اس طرح نئے ٹرم کا باضابطہ آغاز عمل میں آیا۔


قبل ازیں انتخابی بورڈز کے زیرِ نگرانی جمعیۃ علماء ہند کی تمام صوبائی اکائیوں کے انتخابات کا نقشہ پیش ہوا، جسے منظور کیا گیا۔ مجلسِ عاملہ میں صوبۂ دہلی، تلنگانہ اور آسام میں مقررہ مدت میں صوبائی انتخابات مکمل نہ ہونے پر بھی غور ہوا اور فیصلہ کیا گیا کہ ان ریاستوں کے انتخابی بورڈز کو ہدایت دی جاتی ہے کہ حسبِ صواب دید تین ماہ کی مدت میں انتخاب مکمل کرالیں۔

صدرِ جمعیۃ علماء ہند مولانا مدنی نے جدید ٹرم کے 3 سالہ دور (چھتیس ماہ) کا لائحۂ عمل اور کاموں کا نقشہ پیش کرتے ہوئے ملک کے موجودہ حالات، اقلیتوں کی حیات تنگ کرنے، ان کے مذہبی شعائر اور دینی اصطلاحات کی توہین و تحقیر، بلڈوزر کارروائیوں، مذہبی آزادی پر قدغن، اور حلال کے خلاف مہم وغیرہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور میڈیا آئینی حقوق کی پامالی میں شریک ہیں؛ ان کا رویّہ اعتدال، امانت و شرافت سے عاری ہی نہیں بلکہ مکمل طور پر برعکس ہے۔ ان کی کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اس ملک میں غلام بن جائیں اور وہ دوسرے درجے کا شہری بن جائیں جو فرقہ پرستوں کی ایک طویل المدتی پالیسی ہے۔ دوسری طرف یہ امید افزا بات بھی ہے کہ مظلوم طبقات زیادہ جہدِ مسلسل اور محنت سے کام کر رہے ہیں، اور جمعیۃ علماء ہند ایسی جہدِ مسلسل کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی امید افزا ہے کہ برادارانِ وطن کا ایک بڑا طبقہ بھی ہے جو ہمارے دکھ و غم میں برابر کا شریک ہے۔


مجلسِ عاملہ میں حکومتِ ہند بالخصوص وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ کی طرف سے مسلمانوں پر ڈیموگرافی بدلنے اور دراندازی کے الزام لگائے جانے پر تفصیل سے تبادلۂ خیال ہوا اور ایسے بیانات کو قومی یکجہتی، سماجی ہم آہنگی اور آئینی مساوات کے لیے نقصان دہ قرار دیا گیا۔ مجلسِ عاملہ نے اپنی تجویز میں مزید کہا کہ مرکزی حکومت نے متعدد بار سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں تحریری طور پر کہا ہے کہ اس کے پاس غیر قانونی دراندازوں کی کوئی مستند تعداد موجود نہیں، لہٰذا یہ الزامات دروغ گوئی پر مبنی ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند اس اشتعال انگیز اور تفرقہ انگیز بیانیے کو سختی سے مسترد کرتی ہے۔ ایسے الزامات کے ذریعے پورے ملک کے مسلمانوں کو مشکوک اور مشتبہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی قربانیاں اور خدمات قومی تاریخ کے روشن ابواب میں اس طرح درج ہیں کہ انہیں بار بار ملک کے تئیں اپنی وفاداری کے اظہار کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ جمعیۃ علماء ہند وزیرِ اعظم، وزیرِ داخلہ اور سیاسی رہنماؤں کو متنبہ کرتی ہے کہ وہ غیر مصدقہ اور فرقہ وارانہ بیانات سے گریز کریں۔ حکومتِ ہند شفاف اعداد و شمار عوام کے سامنے پیش کرے۔ جمعیۃ علماء ہند روزِ اوّل سے ملک میں غیر قانونی دراندازی کی سخت مخالف رہی ہے اور اس کا یہ احساس ہے کہ اگر بالفرض دراندازی ہورہی ہے تو اس کی پوری ذمہ داری حکومت اور وزارتِ داخلہ کی ہے۔ اس مفروضہ دراندازی کی آڑ میں مسلمانوں کو موردِ الزام قرار دینا بالکل بے بنیاد ہے۔

مجلسِ عاملہ نے وقف ایکٹ 2025 اور امید پورٹل سے متعلق تجویز میں کہا کہ یہ ایکٹ وقف کے مذہبی تشخص کے لیے سنگین خطرہ ہے، اس لیے جمعیۃ علماء ہند اس کی آئینی، قانونی اور جمہوری سطح پر بھرپور مخالفت جاری رکھے گی۔ ’اُمید پورٹل‘ پر رجسٹریشن کے سلسلے میں جمعیۃ نے ابتدا ہی سے تحفظات ظاہر کیے تھے، چونکہ سپریم کورٹ نے اس پر پابندی عائد نہیں کی، اس لیے تمام متولیانِ اوقاف، اوقافی اداروں اور ذمہ داران سے پُرزور اپیل ہے کہ وہ اپنی وقف املاک کا اندراج اُمید پورٹل پر بروقت مکمل کریں تاکہ کسی قانونی یا انتظامی نقصان سے بچا جا سکے۔ یہ اجلاس حکومتِ ہند سے مطالبہ کرتا ہے کہ رجسٹریشن کی آخری تاریخ میں کم از کم دو سال کی توسیع کی جائے تاکہ متولیان اس عمل کو اطمینان کے ساتھ مکمل کر سکیں۔


مجلسِ عاملہ نے فلسطین امن معاہدہ سے متعلق تجویز میں کہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک 1967ء کی سرحدوں کے مطابق ایک خودمختار اور آزاد فلسطینی ریاست قائم نہ ہو، جس کا دارالحکومت القدس (یروشلم) ہو اور مسجدِ الاقصیٰ سمیت تمام مقدس مقامات کی مذہبی حیثیت اور سلامتی کی ضمانت فراہم نہ کی جائے۔ یہ اجلاس فلسطینی عوام کی قربانیوں، ثابت قدمی اور آزادی کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے اور اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی منظم نسل کشی اور غزہ کے تباہ کن محاصرے کی شدید مذمت کرتا ہے، جو حالیہ امن معاہدہ کی روح کے منافی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند عالمی برادری، بالخصوص اقوامِ متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور امن دوست ممالک سے مطالبہ کرتی ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام اور مقدس مقامات کے تحفظ کو یقینی بنائیں، غیر قانونی یہودی بستیوں، قبضوں اور جبری انخلا کے خلاف مؤثر اقدام کریں، تباہ حال فلسطینیوں کو انسانی امداد، علاج، تعلیم اور بازآبادکاری میں فوری مدد فراہم کریں۔ مجلسِ عاملہ حکومتِ ہند سے بھی اپیل کرتی ہے کہ وہ اپنی روایتی خارجہ پالیسی کے مطابق فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کی مکمل حمایت جاری رکھے اور ہر بین الاقوامی فورم پر ان کے منصفانہ و پائیدار حل کے لیے آواز بلند کرے۔

اجلاسِ مجلسِ عاملہ میں بہار کے بعد مزید گیارہ ریاستوں میں ہونے والی ووٹر ایس آئی آر کے طور طریقوں کو غیر اطمینان بخش قرار دیا اور کہا کہ حکومت کا رویّہ غریب اور کمزور طبقات کی شہریت کو نقصان پہنچائے گا۔ مجلسِ عاملہ نے یہ فیصلہ کیا کہ نومبر کے اخیر ہفتہ میں مرکزی مجلسِ منتظمہ جمعیۃ علماء ہند کا اجلاس منعقد کیا جائے۔ اس موقع پر مجلسِ عاملہ نے جمعیۃ علماء تلنگانہ کے صدر حافظ پیر شبیر احمد کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔ ان کے علاوہ رابطۂ عالمِ اسلامی کے سابق سکریٹری جنرل عبداللہ عمر نصیف، مفتیِ اعظم سعودی عربیہ شیخ عبدالعزیز آلِ شیخ، جمعیۃ علماء ہاپوڑ کے سابق صدر مولانا فخرالدین اور راحت میاں ہاشمی دیوبند کی رحلت پر بھی تعزیت پیش کی گئی۔


اجلاس میں صدرِ جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود مدنی اور ناظمِ عمومی مولانا حکیم الدین قاسمی کے علاوہ مہتمم دارالعلوم دیوبند مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی، نائب صدرِ جمعیۃ علماء ہند مولانا محمد سلمان بجنوری و مولانا مفتی احمد دیولہ، مولانا قاری شوکت علی خازنِ جمعیۃ علماء ہند، مولانا رحمت اللہ میر کشمیری صدر مجلسِ قائمہ جمعیۃ علماء ہند، نائب امیر الہند مفتی سید محمد سلمان منصورپوری، مولانا صدیق اللہ چودھری بنگال، مفتی محمد راشد اعظمی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند، مولانا مفتی سید محمد عفان منصورپوری امروہہ، مولانا نیاز احمد فاروقی، حافظ ندیم صدیقی مہاراشٹر، مفتی افتخار احمد قاسمی کرناٹک، مولانا شمس الدین بجلی، حاجی محمد ہارون بھوپال، مولانا منصور کاشفی، حاجی محمد حسن تامل ناڈو، مولانا محمد ابراہیم کیرالا، مفتی محمد جاوید اقبال کشن گنج، مولانا محمد ناظم پٹنہ، مولانا یحییٰ کریمی میوات، مولانا رفیق احمد بڑودہ، مولانا عبدالقادر آسام، مولانا محمد عاقل گڑھی دولت، مولانا عبداللہ معروفی دارالعلوم دیوبند، مفتی عبد الرحمن امروہہ، ڈاکٹر مسعود احمد مئو، مولانا کلیم اللہ امبیڈکر نگر شریک ہوئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔