آسام میں مسلم اقلیت کے گھروں پر بلڈوزر کارروائی کا جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے لیا جائزہ
جمعیۃ علماء ہند کا وفد ضلع گوالپاڑہ کے متاثرہ علاقوں کے دورے پر پہنچا اور حکومت آسام کو میمورنڈم پیش کر جانبدارانہ کارروائی پر سوال اٹھانے کے ساتھ ساتھ معاوضہ و باز آبادکاری کا مطالبہ بھی کیا۔

جمعیۃ علماء ہند کا وفد آسام کا دورہ کرتے ہوئے
نئی دہلی/گوالپاڑہ: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی ہدایت پر آج ایک اعلیٰ سطحی وفد نے ریاست آسام کے ضلع گوالپاڑہ کا دورہ کیا، جہاں حال ہی میں آشدوبی اور ہسیلابیل کے علاقوں میں حکومتِ آسام کی جانب سے انہدامی کارروائی کے تحت 3973 مکانات کو مسمار کیا گیا ہے۔ ان علاقوں کے بیشتر متاثرین بنگالی نژاد مسلمان ہیں۔ واضح ہو کہ جمعیۃ علماء آسام نے بے گھر ہوئے افراد کے لیے سردست خیموں کا انتظام کیا ہے۔

یہ وفد جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمد حکیم الدین قاسمی کی قیادت میں متاثرہ مقامات پر پہنچا، متاثرین سے ملاقات کی اور ان کے حالات کا جائزہ لیا۔ متاثرہ افراد کی حالت دیکھ کر وفد کو بہت زیادہ دکھ ہوا اور ان کی ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی۔ وفد میں سربراہ وفد کے علاوہ حافظ بشیر احمد قاسمی جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء آسام، مولانا عبدالقادر قاسمی اسسٹنٹ جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء آسام، مولانا محبوب حسن اسسٹنٹ جنرل سکریٹری، جمعیۃ علماء آسام مولانا فضل الکریم قاسمی اسسٹنٹ جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء آسام، مولانا عزت علی صدر جمعیۃ علماء ضلع گوالپاڑہ، عبدالحئی جنرل سکریٹری، جمعیۃ علماء ضلع گوالپاڑہ، مفتی سعدالدین ناظم مرکز الیتامی گوالپاڑہ، مولانا جابر قاسمی چھپار اور مولانا ابوالہاشم کوکراجھار شامل ہیں۔
وفد نے ضلع مجسٹریٹ کے توسط سے وزیر اعلیٰ آسام ہمنتا بسوا سرما کے نام ایک عرضداشت بھی پیش کی، جس میں انہدامی کارروائی کو غیر انسانی، غیر آئینی اور مذہبی تعصب پر مبنی قرار دیا گیا۔ عرضداشت میں کہا گیا کہ یہ انہدامی کارروائیاں صرف ان علاقوں میں کی گئیں جہاں بالخصوص بنگالی مسلمان آباد تھے، جبکہ انہی زمینوں پر دیگر برادریوں کے مکینوں کو نہیں چھیڑا گیا جو کہ امتیازی سلوک اور مذہبی بنیاد پر جانبداری کی واضح مثال ہے۔

عرضداشت میں مزید کہا گیا ہے کہ متاثرہ افراد گزشتہ 80-70 سالوں سے ان زمینوں پر رہائش پذیر ہیں، ان کی اکثریت برہمپترا ندی کی تباہ کاریوں سے بے گھر ہونے والوں کی ہے اور وہ سبھی باقاعدہ بھارتی شہری ہیں۔ ان کو بے دخل کرنا انصاف اور انسانی اقدار کے منافی ہے۔ بعض علاقوں میں تو انہدام کی کارروائی صنعتی یا نجی مفادات کی خاطر انجام دی گئی اور متاثرین کو پیشگی اطلاع دینا تک ضروری نہیں سمجھا گیا جو کہ قانونی تقاضوں اور سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
میمورنڈم میں مطالبہ کیا گیا کہ بے دخلی سے پیدا شدہ سنگین انسانی بحران کے ازالے کے لیے فوری طور پر متاثرہ افراد کی بازآبادکاری کے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ آسام میں اب بھی سرکاری خاص زمین کے وسیع قطعے دستیاب ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان بے دخل شدہ افراد کے لیے متبادل انتظامات اور معاوضے کی فراہمی کے لیے آگے آئے۔ جب تک مستقل بندوبست نہ ہو جائے، حکومت کو عارضی طور پر ان متاثرین کو خوراک اور پناہ فراہم کرنی چاہیے۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت اس سلسلے میں ضروری اقدامات کرے گی۔

آسام جمعیۃ علماء کی ابتدائی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ
جمعیۃ علماء آسام کے صدر مولانا بدرالدین اجمل اور جنرل سکریٹری حافظ بشیر احمدقاسمی کی جانب سے پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ کے مطابق ضلع گوالپاڑہ، دھوبڑی اور نلباری سمیت مختلف علاقوں میں مجموعی طور پر 8115 خاندان متاثر ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں 32530 سے زائد افراد جن میں عورتیں، بچے اور بزرگ شامل ہیں، بے گھر ہو چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق نومبر 2023 سے جولائی 2025 تک جاری انہدامی کارروائیوں میں اب تک 21 مساجد، 44 مکتب و مدارس اور 9 عیدگاہیں بھی مسمار کی جا چکی ہیں۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے ان متاثرہ افراد کے لیے پناہ گاہوں اور کھانے پینے کا بھی انتظام کیا گیا ہے، تاہم یہ انتظامات ناکافی ہیں۔ ابھی مزید انتظام کی سخت ضرورت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔