’یہ اسلامی عقیدہ کا نہیں ہندوستانی معاشرے کا معاملہ ہے‘، سپریم کورٹ میں جمعیۃ علماء ہند کی دلیل

مسلمان بننے والے دلتوں کو ایس سی کا درجہ دیئے جانے سے متعلق ایک عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی گئی تھی جس پر آج سماعت ہوئی اور جمعیۃ علماء ہند کے وکیل نے دلائل پیش کیے۔

سپریم کورٹ/ تصویر آئی اے این ایس
سپریم کورٹ/ تصویر آئی اے این ایس
user

پریس ریلیز

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز اسلام اور عیسائیت اختیار کرنے والے دلتوں کو ایس سی کا درجہ دیئے جانے سے متعلق جمعیۃ علماء ہند اور دیگر تنظیموں کی درخواست پر سماعت کو اگلے ماہ وسط جنوری تک کے لیے ملتوی کر دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ وہ پہلے یہ فیصلہ کرے گی کہ ایا اسے کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1952 کے تحت سابق چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) کے جی بالا کرشنن کی سربراہی میں قائم کردہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہئے۔ یا اس کو نظر انداز کرتے ہوئے بحث و مباحثہ کو آگے بڑھانا چاہیے۔

جسٹس سنجے کشن کول، ابھے ایس اوکا اور وکرم ناتھ پر مشتمل تین ججوں کی بنچ نے یہ فیصلہ ایس جی تشار مہتا کی اس دلیل کے بعد سنایا کہ حکومت نے قومی کمیشن برائے مذہبی اور لسانی اقلیت کے تحت رنگاناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کو قبول نہیں کیا جس میں مسلمانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں دس فی صد اور دیگر اقلیتوں کے لیے پانچ فیصد ریزرویشن کی سفارش کی گئی تھی، نیز تمام مذاہب کے دلتوں کو ایس سی کا درجہ دینے کی بھی سفارش کی گئی تھی۔


سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ نے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی طرف سے پیش کردہ عرضی پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ 1950 کا صدارتی حکم نامہ امتیاز پر مبنی ہے اور یک طرفہ ہے، انھوں نے کہا کہ یہاں مسئلہ اسلام میں برابری کے تصور کا نہیں ہے، یہ تو ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اسلام ذات پات کی تفریق کو قبول نہیں کرتا۔ تاہم جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں، وہاں یہ صورت حال سبھی مذاہب کے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے ہمیں فقہ اور عقیدے کی بحث کرنے کے بجائے زمین پر پائی جانے والی صورت حال کو سامنے رکھنی چاہیے، اس سلسلے میں زمینی صورت حال کو بتانے کے لیے متعدد سرکاری رپورٹس موجود ہیں، جن میں رنگاناتھ مشرا کمیشن کی سفارش بھی شامل ہے۔

سینئر وکیل راجو رام چندرن نے کیتھولک بشپس کانفرنس آف انڈیا کی نمایندگی کی، ان کے علاوہ پرشات بھوشن نے بھی ایک فریق کی نمایندگی کی۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ایم آر شمشاد بھی موجود تھے۔


واضح ہو کہ اکتوبر 2022 کو، مرکزی حکومت نے کمیشن آف انکوائری ایکٹ، 1952 کے تحت ایک انکوائری کمیشن قائم کیا ہے تاکہ وہ ایسے نئے افراد کو درج فہرست ذات ('SC') کا درجہ دیئے جانے کا جائزہ لے سکے، جو تاریخی طور پر دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا تعلق ایس سی سے ہے، نیز اس کے اثرات وغیرہ پر بھی فکر انگیز بحث و گفتگو شامل ہو۔ کمیشن کی سربراہی سابق چیف جسٹس آف انڈیا کے جی بالاکرشنن کر رہے ہیں جس میں انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے سابق افسر ڈاکٹر رویندر کمار جین اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے رکن، پروفیسر (ڈاکٹر) سشما یادو بھی شامل ہیں۔ حکومت نے کمیشن سے کہا ہے کہ وہ دو سال میں اپنی رپورٹ پیش کرے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */