وقف بائی یوزر سے متعلق عدالت کا تبصرہ باعث تشویش: مولانا محمود مدنی

عدالت کے عبوری فیصلہ پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہماری مساجد اور قبرستانوں کا تحفظ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وقف بائی یوزر کے اصولی موقف کو تسلیم نہ کیا جائے۔

مولانا محمود اسعد مدنی، تصویر آئی اے این ایس
i
user

پریس ریلیز

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے وقف ایکٹ 2025 کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’وقف بائی یوزر‘ سے متعلق عدالت کا تبصرہ ہمارے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے، جس پر سنجیدہ غور و فکر ناگزیر ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری طرف سے عدالت میں اس قانون کے متعلق کئی سنگین خدشات پیش کیے گئے تھے، جن میں سے ایک یہ تھا کہ کلکٹر یا دیگر انتظامی افسران کو وقف جائیداد کی نوعیت طے کرنے کا غیر معمولی اختیار دینا اور وقف ٹریبونل کا خاتمہ مذہبی حقوق میں سرکاری مداخلت کا ذریعہ بنے گا۔ یہ ایک حد تک اطمینان بخش ہے کہ سپریم کورٹ نے اس پر عبوری روک لگا دی ہے اور دیگر کچھ معاملات میں بھی جزوی راحت دی ہے۔ تاہم سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ ’وقف بائی یوزر‘ کا ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 4 لاکھ سے زائد وقف جائیدادیں ’وقف بائی یوزر‘ کے زمرے میں شامل ہیں، جن میں 1.19 لاکھ مساجد اور 1.5 لاکھ قبرستان کی جائیدادیں ہیں۔ ان میں سے 80 فیصد سے زائد رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ موجودہ ترمیمی قانون نے ’وقف بائی یوزر‘ کو سرے سے کالعدم قرار دے دیا ہے اور جزوی ترمیم کے ذریعہ پہلے سے رجسٹرڈ جائیدادوں کو مستثنیٰ کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ کوئی بڑا نقصان نہیں ہوگا۔ حالانکہ یہ ترمیم ہمارے اصل خدشے کا حل نہیں ہو سکتی۔


مولانا مدنی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وقف بائی یوزر‘ کو قانون سے خارج کرنا اسلامی اصولوں اور صدیوں پرانی مذہبی روایت کی کھلی نفی ہے۔ یہ براہِ راست مسلمانوں کے مذہبی حقوق پر ضرب ہے جبکہ آئینِ ہند نے ان حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جمعیۃ کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ وقف ایک خالص دینی و شرعی معاملہ ہے، اس سے متعلق قانون میں ایسی دفعات شامل نہیں ہونی چاہئیں جو اس کی مذہبی حیثیت کو مجروح کریں یا مسلمانوں کے حقِ مذہبی آزادی میں رکاوٹ ڈالیں۔ لہٰذا سپریم کورٹ کا یہ عبوری فیصلہ اُس وقت تک قابلِ اطمینان نہیں کہا جا سکتا جب تک ’وقف بائے یوزر‘کو مکمل تحفظ نہ مل جائے۔

مولانا مدنی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے اپنے عبوری فیصلہ کے پیرا 143 تا 152 میں جو تبصرہ کیا ہے، اس سے ’وقف بائی یوزر‘ کے تحفظ کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے اور اس کی زد میں زیادہ تر ہماری مساجد اور قبرستان کی جائیدادیں ہیں۔ واضح ہو کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ وقف بائی یوزر کا خاتمہ بادی النظر میں یکطرفہ نہیں ہے کیونکہ 1923 کے وقف ایکٹ سے ہی وقف کے اندراج کی شرط موجود تھی۔ اگر وقف جائیدادیں ایک صدی سے زائد عرصے تک رجسٹرڈ نہیں ہوئیں تو اب شکایت نہیں کی جاسکتی۔  انھوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء اپنے وکلا اور ملی اداروں کے ساتھ مل کر پوری سنجیدگی اور حکمت کے ساتھ یہ جدوجہد جاری رکھے گی تاکہ آئینِ ہند میں دیے گئے مذہبی آزادی اور اقلیتی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔