گئو رکشک اور ہجومی تشدد پر الہ آباد ہائی کورٹ کی یوپی حکومت کو سخت سرزنش

صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ ریاستی فرقہ پرستی سے بڑا کوئی ناسور نہیں ہے۔ انھوں نے تحسین پونہ والا گائیڈ لائن پر بے حسی کو بھی قابل مذمت قرار دیا۔

<div class="paragraphs"><p>الٰہ آباد ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس</p></div>
i
user

پریس ریلیز

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے راہل یادو بنام حکومتِ اترپردیش مقدمہ (کریمنل کیس نمبر 9567/2025) میں الہ آباد ہائی کورٹ لکھنؤ بنچ کے فیصلے پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے تشدد، ہجومی قتل (لنچنگ) اور گئو رکشکوں کے ظلم و ستم پر حکومتِ اترپردیش کو جو تنبیہ کی ہے، وہ بروقت اور حقیقت افروز ہے۔ واضح رہے کہ عدالت نے پرتاپ گڑھ پولیس کی جانب سے گئو کشی کی ایک ایف آئی آر کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دور میں ہجومی تشدد روزانہ کا معمول بن چکا ہے جو دراصل قانون کی حکمرانی کی ناکامی کی علامت ہے۔ مزید برآں پولیس اسے روکنے کے بجائے تشدد کے شکار لوگوں پر غلط ایف آئی آر درج کر کے انارکی اور سماجی تفریق پیدا کر رہی ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند عرصۂ دراز سے یہ بات اٹھاتی آئی ہے کہ گئو رکشا کے نام پر قانون کو ہاتھ میں لینے اور بے گناہوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ ہم نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں عرضی بھی دائر کی تھی، جہاں عدالت نے حکومتوں کو تحسین پونا والا مقدمے میں دی گئی ہدایات پر عمل درآمد کا حکم دیا تھا۔ لیکن افسوس کہ حکومتوں نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی ہدایات کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا، جس سے گئو رکشکوں کے حوصلے مزید بلند ہوئے۔ نیز قانون سازی اور اس پر عمل درآمد میں ریاستی فرقہ پرستی کارفرما رہتی ہے۔ مولانا مدنی نے واضح کیا کہ ملک کے لیے ریاستی فرقہ پرستی سے بڑا کوئی ناسور نہیں، جو آئینِ ہند کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔


واضح ہو کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے مشاہدے میں لکھا ہے کہ تحسین ایس پونا والا بنام یونین آف انڈیا (2018) کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے واضح ہدایت دی تھی کہ ہر ضلع میں نوڈل افسر کی تقرری، خصوصی ٹاسک فورس کی تشکیل اور لنچنگ کے مقدمات کے لیے تیز رفتار عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے، اور ان افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے جو اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام رہیں۔ ان واضح ہدایات کے باوجود اترپردیش پولیس نے صرف ایک سرکلر جاری کرنے پر اکتفا کیا اور کوئی باضابطہ حکومتی حکم نامہ جاری نہیں کیا۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ جاری کردہ سرکلر محض پولیس مشوروں تک محدود ہے، جبکہ آئینِ ہند کے آرٹیکل 162 کے تحت ایک جامع سرکاری پالیسی درکار ہے۔ نیز عدالتی احکامات پر عمل درآمد آئین کے آرٹیکل 141 کے تحت لازم اور واجب التعمیل ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ قانون شکنی، بے قصور شہریوں کی تذلیل یا ان کے آئینی حقوق کی پامالی کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ گئو کشی قوانین کا غلط استعمال، پولیس کا جانبدارانہ رویہ اور بے بنیاد مقدمات سماج میں خوف و ناانصافی کو جنم دے رہے ہیں۔ عدالت کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ حکومت اس کی ذمہ دار ہے اور وہ تین ہفتوں میں وضاحت پیش کرے۔ آخر میں مولانا مدنی نے حکومتِ ہند اور حکومتِ اترپردیش سے مطالبہ کیا کہ وہ آئینی احساس اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحسین پونا والا مقدمے کی ہدایات کو بلا تاخیر نافذ کرے، گئو رکشکوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے اور اقلیتوں اور بے قصوروں کو ہراساں کرنا اور گئو رکشکوں کے اکسانے پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا بند کیا جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔