روہیل کھنڈ جیسے مضبوط علاقے میں بھی آخر کیوں ہار گئی سماجوادی پارٹی؟

اگر سماجوادی پارٹی نے یہی غلطی 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی دہرائیں تو پھر بھارتیہ جانتا پارٹی کو ہرا پانا اس کے لئے ناممکن ہوگا۔

اکھلیش یادو انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے / آئی اے این ایس
اکھلیش یادو انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے / آئی اے این ایس
user

سید ضیغم مرتضیٰ

مسلمانوں کی کثیر تعداد کے علاوہ یادو اور جاٹ ووٹروں کی خاصی موجودگی کے چلتے مانا جا رہا تھا کی روہیل کھنڈ کے علاقے میں سماجوادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کے امیدوار آسانی سے الیکشن جیت جائیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا، سماجوادی پارٹی کے علاوہ تمام دوسرے لوگ بھی جننا چاہتے ہیں کی آخر ایسا کیا ہوا جو پارٹی اپنے مضبوط علاقے میں ہی تمام سیٹوں پر جیت حاصل نہیں کر پائی۔

حالانکہ سماجوادی پارٹی کے رہنما کہتے پھر رہے ہیں کہ روہیل کھنڈ میں ان کے جتنے امیدوار جیت نہیں پائے ہیں وو کافی نزدیکی مقابلہ میں ہارے ہیں۔ لیکن یہ دل بہلانے کی بات زیادہ نظر آتی ہے، یقیناً سماجوادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کو بریلی، بدایوں، شاہجہانپور، پیلی بھیت، رامپور، مرادآباد، امروہہ اور بجنور کی تمام سیٹوں پر جیت کی امید تھی، لیکن شاہجہانپور، اور پیلی بھیت میں پارٹی ایک بھی سیٹ نہیں جیت پائی، اور تو اور مرادآباد صدر، بدایوں صدر، پیلی بھیت صدر، بجنور صدر، حسن پور، نہٹور، اور دھنورا میں سماجوادی پارٹی کے امیدوار نزدیکی مقابلے میں ہار گئے۔


بریلی کمشنری کی 25 میں مس 20 اور مرادآباد کمشنری کی 27 میں سے 10 سیٹ پر سماجوادی پارٹی کے امیدوار الیکشن ہار گئے، اعظم خاں جیسے قدآور رہنما کے ضلع میں سماجوادی پارٹی پانچ میں سے دو سیٹ ہار گئی، امروہہ میں پارٹی کو چار میں سے دو سیٹوں پر ہار کا منہ دیکھنا پڑا، بجنور میں پارٹی آٹھ میں سے چار سیٹ ہار گئی، اس ہار کی تمام وجہ رہیں ان میں مسلمان ووٹوں میں بکھراؤ کے علاوہ دلت ووٹروں کا بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف جانا شامل ہیں۔

مرادآباد، بجنور، بدایوں، دھنورا، شاہجہانپور، ددرول، جلال آباد، تلہر، پیلی بھیت میں بہوجن سماج پارٹی کے امیدواروں نے بڑی تعداد میں مسلمان ووٹوں میں بکھراؤ کیا، اس کے علاوہ تمام سیٹیں ایسی ہیں جہاں مایاوتی کا کور ووٹر مانے جانے والے جاٹو ووٹر بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف چلے گئے، اس کا خمیازہ سماجوادی پارٹی کو اٹھانا پڑا۔ اتنا کافی نہیں تھا کہ اسدالدین اویسی کی پارٹی نے بھی کئی سیٹوں پر سماجوادی پارٹی کو نقصان پہنچایا، بہوجن سماج پارٹی کے مسلم امیدواروں نے بھی سماجوادی پارٹی کے تمام ووٹ نگل لئے۔


یقیناً سماجوادی پارٹی کو اس الیکشن میں اپنے قدآور رہنما اور مسلم ووٹروں پر گہرا اثر رکھنے والے اعظم خان کی کمی بھی کھلی ہوگی، رامپور کے علاوہ اعظم خان کا اثر نہٹور، حسن پور، مرادآباد، بجنور، بدایوں، شہجہانپور، پیلی بھیت، بلاسپور، بریلی، پر بھی ہے، اگر وہ جیل سے باہر ہوتے تو شاید ان کی پارٹی ان علاقوں میں بہتر نتائج کی امید کر سکتی تھی، ان کے علاوہ شفیق الرحمن برق، سلیم شیروانی، شاہد منظور، جاوید عابدی، جیسے تمام مسلم چہرے تھے جن کو سماجوادی پارٹی نے اپنی سیاسی ریلیوں سے دور رکھا، اس سے پارٹی کے ہندو ووٹوں میں بھلے اضافہ نہ ہوا ہو، لیکن مسلمان ووٹر ضرور کم ہو گئے۔

سماجوادی پارٹی کو غلط ٹکٹ بانٹنے کا بھی خمیازہ بھگتنا پڑا، امروہہ ضلع کی حسن پور سیٹ سے پارٹی نے مکھیہ گوجر کو میدان میں اتارا، مکھیہ کچھ دن پہلے تک بھارتیہ جنتا پارٹی میں تھے اور وہ سنگھ کے کارکن رہ چکے ہیں، اس کو ٹکٹ دینے سے یہ ہوا کی بہت سے مسلمان ووٹر ووٹ دینے کے لئے گھر سے ہی نکلے، الٹا آس پاس کی سیٹ پر بھی مسلمان ناراض ہو گئے، نتیجوں سے پتہ لگتا ہے کی گوجر ووٹ بھلے سماجوادی پارٹی کو تمام سیٹوں پر نا ملا ہو لیکن غلط امیدواروں کے چلتے کئی سیٹیں ضرور کم ہو گئیں۔


روہیلکھنڈ کے جن ضلعوں میں پہلے دور میں ووٹنگ ہوئی وہاں الیکشن کمیشن کی پابندیوں کا نقصان بھی سماجوادی پارٹی کو ہوا، پارٹی ان علاقوں میں جلسے نہیں کر پائی، کووڈ کی وجہ سے پارٹی کے عہدیدار ووٹروں تک اپنی پہنچ نہیں بنا پائے، دراصل سماجوادی پارٹی کے ووٹر زیادہ تر تعلیمی اعتبار سے پچھڑے ہیں اور ان کی انٹرنیٹ تک پہنچ نہیں ہے، پارٹی کے پاس اتنے وسائل نہ تھے کی وہ ڈیجیٹل یا پروجیکٹر کے ذریعے سے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا پاتی، ظاہر ہے ان پابندیوں کا فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملا۔

اس کے علاوہ سماجوادی پارٹی نے ایک غلطی یہ کی کہ اس نے اکھلیش یادو کے علاوہ اپنے دوسرے تمام رہنماؤں کا استمعال الیکشن میں پوری طریقے سے کیا ہی نہیں، سوامی پرساد موریہ، سلیم شیروانی، شاہد منظور، ابو عاصم اعظمی، عبدللہ اعظم، محبوب علی، جاوید عابدی، جاوید علی خان، عمران مسود، امیر عالم، احمد حمید، جینت چودھری، اوم پرکاش راجبھر اور دھرم سنگھ سینی جیسے رہنما اگر روہیلکھنڈ میں استعمال کیے جاتے اور ان کے جلسے جگہ جگہ ہوتے تو یقیناً نتیجے بہت بہتر ہوتے۔


خیر، اب تو جو ہونا تھا وہ ہو چکا، سماجوادی پارٹی کو ایسا ماحول اب شاید ہی دوبارہ کبھی ملے، آگے اگر پارٹی کو اس سے بہتر نتیجے درکار ہیں تو یقیناً ان تمام غلطیوں سے سبق لینا ہوگا، اگر سماجوادی پارٹی نے یہی غلطی 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی دہرائیں تو پھر بھارتیہ جانتا پارٹی کو ہرا پانا اس کے لئے ناممکن ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔