اتنا ہنگامہ کیوں ہے بھائی!

ہر شعبہ کو ایک مخصوص رنگ میں رنگنے یا مخصوص انداز میں ڈھالنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ ہر ایک شعبہ کو دستور اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے آزادانہ کام کرنے کا موقع فراہم کرایا جائے۔

فلم ’پٹھان‘ تصویر آئی اے این ایس
فلم ’پٹھان‘ تصویر آئی اے این ایس
user

نواب علی اختر

بالی ووڈ کے دو بڑے ستارے امیتابھ بچن اور شاہ رخ خان جمعرات کو ایک اسٹیج پر تھے۔ کولکتہ انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان دونوں میں سے کسی نے بھی براہ راست طور پر حالیہ تنازعات کا ذکر نہیں کیا لیکن مضبوط انداز میں موجودہ دور کے اس رجحان کی نشاندہی کرگئے جو ملک میں سنیما کی تخلیقی صلاحیتوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ شاہ رخ خان کی آنے والی فلم ’پٹھان‘ کے گانے ’بے شرم رنگ‘ کے حوالے سے اٹھا وہ تنازع تو ان خطروں کا صرف ایک پہلو ہے جس میں گانے کو ’بھگوا‘ کی توہین بتاکر ہنگامہ کیا جا رہا ہے۔

خود ساختہ بنیادی عناصر کو تو چھوڑیئے، ایک ریاست کے وزیر داخلہ نے بھی اس گانے کو قابل اعتراض بتا کرجم کر اشتعال انگیزی کرتے ہوئے کہا ہے کہ دیپیکا کچھ سال پہلے جواہرلال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) جاکر ٹکڑے-ٹکڑے گینگ کی حمایت کرکے اپنی ذہنیت کا ثبوت دے چکی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی فلم یا اس میں دکھائے گئے کسی منظر کا اندازہ لگانے کے لیے آج حکومت سے وابستہ لوگ بھی کس کس طرح کی کسوٹیاں آزما رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بالی ووڈ میں کسی بھی نئے پروجیکٹ کے لیے موضوع کا انتخاب ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔


کوئی نہیں جانتا کہ کس موضوع سے متعلق کس پہلو کو اٹھا کر فلم کو تنازعات میں گھسیٹ لیا جائے گا۔ موجودہ تنازعہ میں بھی اس فلم کی نمائش کرنے والے سینما ہالوں کو نذرآتش کرنے کے لیے کھلے عام کالیں دی جا رہی ہیں، لیکن ابھی تک ان شرپسند عناصر کے خلاف کوئی مقدمہ درج کئے جانے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ پھر بھی یہ ان خطروں کا صرف ایک پہلو ہے۔ جرائم کے چھوٹے بڑے واقعات کے بہانے پوری فلم انڈسٹری کو بدنام کرنے کا رجحان بھی کچھ عرصے سے کافی مضبوط ہوتا نظر آ رہا ہے۔

چونکہ فلم انڈسٹری کا وجود کافی حد تک سماج کے بڑے حصہ کے پرستاروں پر بھی منحصر کرتا ہے، اس لیے اس کی یا اس سے وابستہ افراد کی شبیہ پر حملہ اس کے آمدنی کے منصوبوں پر حملہ ہے، جس کو ہلکے میں لینا خود اس انڈسٹری کے لیے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ ان خطرات کی تیسری شکل انڈسٹری کے اندر نظر آنے والی نظریاتی تقسیم ہے۔ حالانکہ خیالات تخلیقی قوت کا محرک ہوتے ہیں، اس لیے نظریاتی خواہشات کو پہلی نظر میں منفی نہیں مانا جا سکتا، لیکن اس وقت جو تقسیم نظر آتی ہے، اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں تخلیقیت کو ہی طاق پر رکھ دیا گیا ہے۔


ابھی چند روز پہلے کی ہی بات ہے جب گوا فلم فیسٹیول کے لئے بھیجی گئی انتہائی متنازعہ فلم ’کشمیر فائلز‘ کو جیوری کے چیئرمین نے سرعام بے ہودہ اور پروپیگنڈہ فلم قرار دیا جس پر تقریباً پوری جیوری متفق نظر آئی سوائے ان لوگوں کے کہ جو ہندوستان کی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے۔ اس موقع پر مٹھی بھر تنگ نظر لوگوں کی وجہ سے ہماری پوری فلم انڈسٹری شرمندہ نظر آئی۔ سینما کی اپنی ’سافٹ پاور‘ کی حفاظت کے لیے حکومت کو شرپسندوں کے خلاف غیر جاندارانہ ہو کر اقدام کرنا چاہئے۔

یوں تو شاہ رخ خان کی آنے والی فلم ’پٹھان‘ ابتدا سے ہی تنازعات کا شکار رہی ہے اور اس کے خلاف ’بائیکاٹ پٹھان‘ کا نعرہ بھی سننے کو ملتا رہا ہے لیکن گزشتہ روز شاہ رخ خان نے اپنی اس فلم کے گانے ’بے شرم رنگ‘ کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے جب ٹوئٹ کیا تو لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ مگر گانا ریلیز ہونے کے ساتھ ہی فلم کے بائیکاٹ کے ساتھ ’بے شرم رنگ‘ اور دیپیکا ٹرینڈ کرنے لگے۔ جہاں بہت سے لوگ شاہ رخ خان اور اداکارہ دیپیکا پڈوکون کی جوڑی پر فریفتہ نظر آئے، وہیں کچھ صارفین نے گانے کو مذہبی رنگ دیا اور یہ اعتراض کیا کہ گانے میں دکھائے رنگ ’بے شرم‘ ہرگز نہیں۔


 ’پٹھان‘ کے گانے ’بے شرم رنگ‘ کی ریلیز کے بعد سوشل میڈیا پر پٹھانوں، مسلمانوں اور بھگوا رنگ کو لے کر شروع ہوا طوفانِ بدتمیزی تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ اس ہنگامے سے فلم کی تشہیر تو ہو رہی ہے لیکن جس طرح کی ذہنیت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ قابل افسوس ہے۔ اب چونکہ بھگوا رنگ ایک مخصوص سیاسی پارٹی کی جاگیر کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے تو اس پر سیاست تو بنتی ہے۔ اس نام نہاد مذہبی سیاست میں نہ صرف دائیں بازو کی جماعتیں شامل ہیں بلکہ سادھو اور سنت بھی میدان میں کود پڑے ہیں اور فلم کے بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ منہ بھر بھر کر بالی ووڈ کو کوس رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گانا کمپوز کرنے والے وشال شیکھر ہیں اور اس کے بول کمار نے لکھے ہیں مگر شامت خان صاحب کی آ گئی۔

ہندی فلموں کے بادشاہ کہے جانے والے شاہ رخ خان پورے پانچ سال بعد بڑے پردے پر واپسی کر رہے ہیں اور کہا جا رہا تھا کہ کنگ خان کی یہ واپسی زبردست ہو گی مگر یہ اتنی دھماکہ دار ہو گی اس کا اندازہ شاید کم ہی لوگوں کو تھا۔ آج کل ہر بڑی فلم کی ریلیز سے پہلے ایک بڑا تنازع پیدا ہونا معمول بن چکا ہے، اب چاہے وہ عامر خان کی ’لال سنگھ چڈھا‘ ہو یا دیپیکا کی ’پدماوت‘ یا پھر رنبیر کپور کی ’برہماسترہ‘ اور عامر کی فلم ’پی کے‘ اِن سب سے متعلق کوئی نا کوئی تنازع ضرور پیدا ہوا۔ ان حالات میں ایسا لگنے لگا ہے کہ جیسے یہ بالی ووڈ میں بائیکاٹ اور دھمکیوں کا سیزن ہے۔


اس ہنگامہ نے ایک بات تو صاف کر دی ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں سیاسی مداخلت سے گریز کیا جائے۔ ہر شعبہ کو ایک مخصوص رنگ میں رنگنے یا مخصوص انداز میں ڈھالنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ ہر ایک شعبہ کو دستور اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے آزادانہ کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے جس کے ذریعہ اختراعی اور تخلیقی صلاحتوں کو نکھارا اور ابھارا جاسکتا ہے۔ ہر مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے سے بھی گریز کیا جانا چاہئے۔ نفرت کو ہوا دینے اور اسے فروغ دینے کی بجائے ہر شعبہ کی جانب سے نفرت کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی جانی چاہئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔