سپریم کورٹ نے کیوں کہا ’حکومت نامرد ہے‘؟… سہیل انجم

کیا حکومت اشتعال انگیزی اور نفرت پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرکے سپریم کورٹ کو غلط ثابت کرے گی اور اپنے عمل سے یہ بتائے گی کہ وہ ’نامرد‘ نہیں ہے؟

سپریم کورٹ/ تصویر آئی اے این ایس
سپریم کورٹ/ تصویر آئی اے این ایس
user

سہیل انجم

ایسی مثال شاذ و نادر ہی ملے گی کہ جب ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ریاستی حکومتوں کو نامرد ہونے کا طعنہ دیا ہو۔ وہ مرکزی حکومت کو بھی بارہا آڑے ہاتھوں لے چکا ہے۔ مختلف امور میں اس نے حکومت کی ایسی گوشمالی کی ہے کہ کوئی اور حکومت ہوتی تو چیخ پڑتی۔ عدالت عظمیٰ پولیس محکمہ کی بھی بری طرح سرزنش کر چکی ہے۔ لیکن نہ تو مرکزی حکومت پر کوئی اثر پڑتا ہے نہ پولیس محکمے پر اور نہ ہی ریاستی حکومتوں پر۔ عدالت نے مختلف مواقع پر حکومت اور پولیس کو برا بھلا کہا ہے اور ان کی جانبداری کو کھلے بندوں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ لیکن جب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ریاستی حکومتیں نامرد ہیں۔ ان کے پاس کوئی طاقت ہی نہیں ہے۔

دراصل سپریم کورٹ کی ایک دو رکنی بنچ ریاست مہاراشٹر کے مختلف علاقوں میں ہندوؤں کی ایک تنظیم سکل ہندو سماج کی جانب سے نکالی جانے والی درجنوں ریلیوں کے سلسلے میں ایک عذرداری پر سماعت کر رہی تھی۔ یہ بنچ جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگ رتنا پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں جج حضرات انتہائی انصاف پسند ہیں اور ان کے انداز کار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان پر حکومت کا کوئی دباؤ کام نہیں کر رہا ہے۔ حالانکہ عدالتوں کے سلسلے میں اب یہ بات اٹھنے لگی ہے کہ وہ بھی دیگر اداروں کے مانند حکومت کے زیر اثر آگئی ہیں اور بہت سے معاملات میں ایسے فیصلے سنائے جا رہے ہیں جو حکومت کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ تازہ ترین معاملہ راہل گاندھی کو دو سال کی سزا سنانے کا ہے۔


مہاراشٹر کے الگ الگ علاقوں میں گزشتہ چار ماہ کے دوران پچاس سے زائد ریلیاں نکالی گئی ہیں جن میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کی گئی۔ ان میں نام نہاد لو جہاد، لینڈ جہاد اور تبدیلی مذہب کے معاملات اٹھائے گئے اور ہندوؤں سے اپیل کی گئی کہ وہ مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ کریں۔ گوکہ بی جے پی نے خود کو یہ کہتے ہوئے ان ریلیوں سے الگ کر لیا ہے کہ وہ آر ایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم سکل ہندو سماج کے ذریعے نکالی گئی ہیں اور ان سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن ان ریلیوں میں بی جے پی کے ایم پی اور ایم ایل اے بھی شریک ہوتے رہے اور اپنی موجودگی سے ریلیوں میں کی جانے والی اشتعال انگیزیوں کی بالواسطہ تائید کرتے رہے ہیں۔

اس سے قبل سپریم کور ٹ نے ان ریلیوں سے متعلق ایک عذرداری پر سماعت کرتے ہوئے مہاراشٹر حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ ان میں اشتعال انگیزی اور نفرت انگیز تقریریں نہ ہونے دے اور اگر ایسی تقریریں ہوں تو مقررین اور منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کرے۔ لیکن ریاستی حکومت نے اس سلسلے میں نہ تو کوئی کارروائی کی اور نہ ہی ریلیوں کے انعقاد کو روکنے کی کوئی کوشش کی اور نہ ہی اشتعال انگیزی اور نفرت انگیزی پر کوئی پابندی لگائی۔ جب ریاستی حکومت خاموشی سے سب کچھ دیکھتی رہی تو کیرالہ سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے ایک کارکن شاہین عبداللہ نے سپریم کور ٹ میں توہین عدالت کی ایک عرضی داخل کرکے عدالت سے کارروائی کرنے کی اپیل کی۔


اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے بنچ نے سیاست میں مذہب کے گھال میل کے خلاف سخت تبصرہ کیا اور کہا کہ جس دن سیاست داں سیاست میں مذہب کی آمیزش بند کر دیں گے اسی دن یہ نفرت انگیزی بند ہو جائے گی۔ جسٹس کے ایم جوزف نے کہا کہ جس دن سیاست اور مذہب کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا جائے گا اس دن یہ نفرت انگیزی ختم ہو جائے گی۔ بقول ان کے ہم نے اپنے حالیہ فیصلے میں بھی کہا ہے کہ سیاست میں مذہب کی آمیزش جمہوریت کے لیے خطرناک ہے۔ شرپسند عناصر دوسروں کو بدنام کرنے کے لیے روزانہ ٹی وی چینلز اور عوامی جلسوں میں نفرت انگیز تقریریں کر رہے یا بیانات دے رہے ہیں۔

جسٹس ناگ رتنا نے پنڈت جواہر لعل نہرو اور اٹل بہاری واجپئی کی تقریروں کا حوالہ دیا اور کہا کہ گاؤں دیہات کے لوگ بھی ان کی تقریریں سنتے تھے۔ لیکن آج ہم کہاں جا رہے ہیں۔ شرپسند عناصر یومیہ اشتعال انگیزی کرتے ہیں اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ ہم ان لوگوں کے خلاف توہین عدالت کے تحت ایکشن لیں۔ کیا اب ہندوستان کے لوگوں میں ذرا بھی تحمل نہیں رہ گیا۔ ہم دنیا میں نمبر ون بننا چاہتے ہیں لیکن اندرون ملک ہمارے معاشرے میں کیا ہو رہا ہے۔ اگر بداخلاقی کا یہی عالم رہا تو آپ اس ملک کو دنیا میں نمبر ون نہیں بنا سکتے۔


جسٹس جوزف نے کہا کہ آج کسی کو بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ پاکستان چلے جاؤ۔ حالانکہ دوسری کمیونٹی کے لوگوں (مسلمانوں) نے اس ملک کا انتخاب کیا ہے۔ وہ ہمارے بھائی بہنوں جیسے ہیں۔ ہم بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اتنی نچلی سطح تک مت اتر جائیے۔ ہم آئین و قانون کے پابند ہیں۔ ہم توہین عدالت کے معاملے پر اس لیے سماعت کر رہے ہیں کہ ریاستیں ایکشن نہیں لیتیں۔ اگر ریاستیں خاموش رہیں تو پھر ہمیں ان کی کیا ضرورت ہے۔ انھوں نے سیاست دانوں کی جانب سے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر فائدہ اٹھانے کی جانب اشارے کرتے ہوئے جو کچھ کہا وہ کسی بھی غیرت مند حکومت کے لیے تازیانے سے کم نہیں ہے۔ لیکن بجائے اس کے کہ ان کی باتوں پر غور کیا جائے بی جے پی سے وابستہ بہت سے لوگ جسٹس جوزف کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں۔

عدالت کی جانب سے حکومت کی سرزنش مرکزی حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے سولیسیٹر جنرل تشار مہتہ کو پسند نہیں آئی۔ لہٰذا ان میں اور بنچ میں تیکھی نوک جھونک ہوئی۔ تشار مہتہ نے کہا کہ ’دوسری ریاستوں کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن مرکز نامرد اور بے طاقت نہیں ہے۔ اس نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) پر پابندی لگائی‘۔ خوب پابندی لگانے کی بات کہی گئی تو پی ایف آئی پر۔ بہادری اور جواں مردی تو تب ہوگی جب وی ایچ پی، بجرنگ دل اور سکل ہندو سماج جیسی تنظیموں پر پابندی لگائی جائے۔ اگر حکومت ان پر پابندی لگائے تب ان کا یہ دعویٰ حق بجانب ہوگا کہ مرکزی حکومت نامرد نہیں ہے۔


انسانی حقوق کے کارکنوں نے سپریم کورٹ کے اس سخت تبصرے کا خیرمقدم کیا ہے۔ انھوں نے اسے بہت اہم قرار دیا لیکن یہ بھی کہا کہ سیاست میں بالکل اوپری سطح سے لے کر نچلی سطح تک ہیٹ اسپیچ کا جو سلسلہ ہے اس کو روکنے کے لیے نہ تو پولیس نے کوئی سخت کارروائی کی ہے اور نہ ہی عدلیہ نے۔ خیال رہے کہ نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی نے کچھ دنوں پہلے ایک سروے کیا تھا جسے اس نے ’وی آئی پی ہیٹ اسپیچ‘ سروے کہا ہے اور جو سینئر وزرا، بڑے سیاست دانوں اور ارکان پارلیمنٹ و اسمبلی کی تقریروں کے سلسلے میں ہے۔ اس سروے کے مطابق 2014 کے بعد نفرت انگیزی میں 1100 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

تاہم مبصرین کے مطابق سپریم کورٹ کے اس تبصرے سے ایک امید بندھی ہے کہ شاید کوئی کارروائی ہو۔ ہمیں اس سلسلے میں اپنا مطالبہ دوہراتے رہنا چاہیے۔ اگر ہم مطالبہ بھی نہیں کریں گے تو ہمارے اداروں کی ناکامی اور زیادہ بے نقاب ہوگی۔ لیکن اسی کے ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں کا جو ہمارا تجربہ ہے اس کے پیش نظر ہمیں اس کا بھروسہ کم ہے کہ عدلیہ ہیٹ اسپیچ کے سیلاب کو روکنے کے لیے کوئی سخت قدم اٹھائے گی۔ ان کے مطابق عدالت نے جن فرنج ایلیمنٹس کی ہیٹ اسپیچ کا ذکر کیا ہے ان کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ ان کو حوصلہ کہاں سے ملتی ہے۔


واضح رہے کہ جب حکومت کے وزرا اشتعال انگیز بیانات دیتے ہیں تو پھر چھوٹے کارکن کیوں خاموش رہیں گے۔ عدالت کو اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ پولیس ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی۔ سپریم کورٹ نے یہ تو کہا ہے کہ ہم آئین کے پابند ہیں لیکن کیا موجودہ حکومت بھی آئین کی پابند ہے۔ آئین میں تو بہت سی باتیں کہی گئی ہیں لیکن آج کل آئین کو اٹھا کر طاق پر رکھ دیا گیا ہے اور حکومت اپنی مرضی سے کام کر رہی ہے۔ کیا حکومت اشتعال انگیزی اور نفرت پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرکے سپریم کورٹ کو غلط ثابت کرے گی اور اپنے عمل سے یہ بتائے گی کہ وہ ’نامرد‘ نہیں ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔