’کورونا جہاد‘ والے ’کمبھ کے کہرام‘ پر خاموش کیوں؟... نواب علی اختر

گزشتہ سال اپریل میں میڈیا کے ایک طبقے نے نظام الدین میں تبلیغی جماعت کو نشانہ بنا کر لگاتار ایک ہیش ٹیگ چلایا تھا۔ اس ہیش ٹیگ کا نام’ کورونا جہاد‘ تھا۔ تبلیغیوں کو غیر ذمہ دار اور’طالبانی‘ تک کہا گیا۔

تصویر نواب
تصویر نواب
user

نواب علی اختر

کورونا وائرس کی وجہ سے آج ایک سال بعد ایک بار پھر ہر طرف ہو کا عالم دیکھ رہے ہیں، ہرشخص کے چہرے پرموت کا خوف صاف دکھائی دے رہا ہے، اسپتالوں میں کہرام مچا ہوا ہے، زندگی بخش ادویات کا بحران ہے، باوجود اس کے ہریدوار میں عقیدت کا میلہ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ جاری ہے۔ حالانکہ اس دوران ایک سے زائد سادھوؤں کی موت ہوچکی ہے، مذہب کے ٹھیکیداروں سمیت سینکڑوں عقیدتمند وائرس کا شکار ہوکر زندگی اور موت کے درمیان جنگ لڑ رہے ہیں، پھر بھی انتظامیہ کوئی سخت قدم اٹھانے سے ڈر رہا ہے کیونکہ اسے ہندو مخالف قرار دیئے جانے کا ڈر ہے۔ انتظامیہ کے ذریعہ سخت قدم نہ اٹھائے جانے سے صاف ہے کہ ہریدوار میں جمع لاکھوں لوگ جماعتی نہیں ہیں۔

اس وقت ملک کے واقعات میں دو رخ دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک موت اور مایوسی سے متعلق واقعات کا سلسلہ ہے تو دوسراعقیدت، تیوہار اور بھیڑ ہے۔ اس دوسرے تعلق سے سیاسی رہنماؤں کو کوئی پرہیز نہیں ہے۔ اس بھیڑ کو وہ محفوظ مانتے ہیں، کیونکہ اس میں شامل لوگوں پر اوپر بیٹھے ہوئے دیوتا اپنی کرپا برسا رہے ہیں۔ پہلے معاملے میں شمشان گھاٹوں کے باہر انتظار کر رہے لوگوں کا منظر، مریضوں کے لواحقین اسپتالوں کے باہر بیڈ کے لئے ٹک ٹکی لگائے کھڑے ہیں، ٹیسٹ کے نتائج کا انتظار ہو رہا ہے۔ دھڑکتے دلوں سے لوگ آکسیجن اور وینٹی لیٹر کا انتظار کر رہے ہیں۔ اموات ہو رہی ہیں۔ لوگوں کی اس دنیا میں ایک بار پھر تارکین وطن مزدوروں کی بھیڑ سڑکوں اور اسٹیشنوں پر رینگتی نظر آنے لگی ہے۔ ایک بار پھر وہ بوریا، بستر باندھ کر ٹرینوں سے گھر لوٹتے دکھائی پڑ رہے ہیں۔ اس دنیا میں سب کچھ غلط ہے، اس دنیا میں ’کرفیو‘ کا اعلان ہو رہا ہے۔ کسی سماجی اور مذہبی تقریب میں 50 سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔


لیکن دوسری دنیا کی وارداتوں کے سلسلے میں لاکھوں لوگوں کے ’پوتر اسنان‘ کے منظر نظر آرہے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کی بھیڑ ہریدوار کے کمبھ میلے میں ندیوں میں ڈبکی لگا رہی ہے۔ مرکزی دھارے کا میڈیا، جنہیں عقیدت مند کہہ رہا ہے وہ ندیوں کے پانی میں اپنے پاپ دھو رہے ہیں جبکہ کووڈ کے کیس طوفانی رفتار سے بڑھتے ہوئے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ رہے ہیں۔ یہ وہی دنیا ہے جس میں لوگ اب بھی کورونا پھیلنے کا ٹھیکرا تبلیغی جماعت پر پھوڑ رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاسی طاقت کی جانب سے اقلیتوں کے خلاف جب تعصب کے الزامات لگائے جاتے ہیں تو تبلیغیوں کو کٹگھرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ یاد کیجیے جب کورونا انفیکشن کی پہلی لہر آئی تھی تو مین اسٹریم کے الیکٹرانک میڈیا نے انہیں ’انسانی بم‘ کہا تھا لیکن کمبھ میں اسنان کرنے آئے لاکھوں لوگ عقیدتمند ہیں۔ ان کے خلاف کچھ بھی بولنے کا مطلب غداری ہوسکتا ہے۔

اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہریدوار میں جاری کمبھ میلے کا موازنہ گزشتہ سال دہلی کے نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے صدر دفتر میں جمع لوگوں سے نہیں کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ وہ (جماعتی) ایک عمارت کے اندر جمع تھے جبکہ کمبھ میں آئے لوگ کھلے میں رہ رہے ہیں اور یہاں تو گنگا بہہ رہی ہے، ماں گنگا کا بہاؤ اور آشیرواد سے کورونا کا انفیکشن دور ہی رہے گا، ماں گنگا اسے پھیلنے نہیں دیں گی۔ تبلیغی جماعت کے اجتماع سے اس کا موازنہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ گزشتہ سال اپریل میں میڈیا کے ایک بڑے طبقے نے نظام الدین مرکز میں تبلیغی جماعت کے لوگوں کے مذہبی اجتماع کو نشانہ بنا کر لگاتار ایک ہیش ٹیگ چلایا تھا۔ اس ہیش ٹیگ کا نام’ کورونا جہاد‘ تھا۔ تبلیغیوں کو غیر ذمہ دار اور’طالبانی‘ کہا گیا۔ ان پر 25 مارچ 2020 سے لگائے گئے ملک گیر لاک ڈاؤن کے ابتدائی ہفتوں میں کورونا انفیکشن پھیلانے کے الزام لگائے گئے۔


اس واقعے کے بعد مسلم دکانداروں کے بائیکاٹ کی لہر دوڑ گئی، مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر کا سیلاب آگیا اور زیادہ تر مین اسٹریم الیکٹرانک میڈیا نے نظام الدین مرکز میں شامل ہوئے افراد کو کڑی سزا دینے کی اپیل کی۔ 25 مارچ 2020 کوجب ملک میں ہر روز کورونا کے 250 کیسز آرہے تھے تو بی جے پی آئی ٹی سیل کے امیت مالویہ نے کہا تھا کہ نظام الدین میں تبلیغیوں کا جمع ہونا جرم ہے۔ 14 اپریل کو امت مالویہ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران دہلی میں کورونا کے 13,468 کیسیز آئے ہیں۔ یہ ممبئی کے 7,873 کیسیز سے تقریباً دوگنے ہیں، دہلی میں کوئی الیکشن نہیں ہے، کمبھ بھی نہیں ہے۔ یہ سب صرف دہلی میں ایک ناقابل وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے رہنے کی وجہ سے ہو رہا ہے لیکن وہ اخبارات میں خوب اشتہارات دے رہے ہیں۔

آج (اتوار) کو ملک میں کورونا کے 2.61 لاکھ سے زائد کیس رپورٹ ہوئے اور 1501 مریضوں کی موت ہوئی۔ جب سے یہ انفیکشن شروع ہوا ہے تب سے ایک دن میں اتنے زیادہ نئے کیسیز کبھی نہیں ہوئے تھے۔ 12 اور 14 اپریل کو کمبھ میں دو شاہی اسنان ہوئے۔ ان میں 48.51 افراد نے حصہ لیا، لیکن ان میں سے بیشتر کووڈ- 19 سے تحفظ کے معیاری قوانین کی خلاف ورزی کرتے دیکھے گئے۔ نہ تو لوگوں نے ماسک پہنے تھے اور نہ ہی وہ سماجی دوری پرعمل کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ اس سال 5 اپریل کو ملک میں پہلی بار ایک دن میں کورونا انفیکشن کے ایک لاکھ سے زائد کیسیز ریکارڈ کیے گئے تھے، لیکن اسی کے ایک روز بعد 6 اپریل کو اتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت خود کمبھ میں نمودار ہوئے، ان کا ماسک ٹھڈی تک کھسکا ہوا تھا۔ اس سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ میلہ سب کے لئے کھلا ہونا چاہیے۔ 20 مارچ کو انہوں نے اعلان کیا کہ کووڈ۔ 19 کے نام پر کسی کو بھی میلے میں آنے سے نہیں روکا جائے گا۔ ایشور میں عقیدت وائرس کو ختم کردے گی، مجھے اس کا پورا بھروسہ ہے۔


جبکہ اس سے الگ جو دوسری دنیا ہے اس میں ٹی وی چینل اور آن لائن میڈیا کے اینکر وزیر اعظم کو’ ویکسین گرو‘ کہہ کر ان کی واہ واہی کر رہے ہیں۔ انہیں کمبھ میں لاکھوں لوگوں کی بھیڑ کے جمع ہونے میں بہت زیادہ خطرہ نظر نہیں آرہا ہے۔ جب کہ کمبھ میلوں کی وائرل ہو رہی تصاویر سے صاف پتا دکھائی دے رہا ہے کہ وہاں کووڈ پروٹوکول کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ ہمارے میڈیا کے بڑے حصہ کو ہریدوار میں 30 اپریل تک لوگوں کے جمع ہونے دینے کے حکومت کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن غیر ملکی میڈیا کمبھ میں اتنے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پر سوال اٹھا رہا ہے اور اسے ’سپر اسپریڈر‘ بتا رہا ہے۔ کوڈ انفیکشن نے ہندوستان کو’نگل‘ لیا ہے لیکن لوگ ابھی بھی گنگا ندی میں ڈبکی لگا رہے ہیں۔ یہاں پر کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں جیسے کیا وزیراعظم مودی نے مذہبی رہنماؤں کی مخالفت کے ڈرسے ان پوگراموں میں لوگوں کے جمع ہونے پر روک نہیں لگائی؟۔ ملک کے میڈیا کا بڑا حصہ اس پر پوری طرح خاموش ہے۔

نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے لوگوں کے اجتماع سے پہلے دہلی میں دو واقعات ہوچکے تھے۔ شاہین باغ میں سی اے اے کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا اور اس کے بعد اسی معاملے پر دہلی میں فساد ہوچکا تھا۔ شاہین باغ کے احتجاج اور دہلی میں ہوئے فسادات میں میڈیا حکمران جماعت کے ایجنڈے کو ہی دکھا رہا تھا۔ بی جے پی کی پروپیگنڈا مشینری مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کا ایجنڈا چلا رہی تھی، تبلیغی جماعت کے معاملے میں اس کے اس طرح کے پروپیگنڈے کی قلعی کھل گئی۔ دراصل ہندوستان کے مین اسٹریم میڈیا اور بی جے پی کی پروپیگنڈا مشینری میں کوئی فرق ہی نہیں رہ گیا ہے۔ کمبھ کے معاملے میں ہندوتوا کا بیک گراؤنڈ جو بی جے پی کا ایجنڈہ ہے، کمبھ سب زیادہ کووڈ پھیلانے کا ذریعہ بن گیا ہے لیکن میڈیا حکمران جماعت سے سوال نہیں کر رہا ہے۔ یقین جانئے اگر رمضان کے دوران کوئی مذہبی پروگرام ہوا تو یہی میڈیا گلا پھاڑ پھاڑ کر چلائے گا، کمبھ پرسوال کیا تو بی جے پی کے ایجنڈے کو چوٹ نہیں پہنچے گی؟۔ میڈیا کا یہی تعصب عوام کے لئے وبال جان بن گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔