سونیا گاندھی کا کانگریس کو ٹریک پر لانے کا پلان شروع... م-افضل

سونیا گاندھی نے کہا کہ پارٹی لیڈروں کو عوام کے پاس جانے کی ضرورت ہے، کانگریس کا عوام سے رابطہ ٹوٹا نہیں ہے بس کچھ کمزور ہوگیا ہے، جس دن یہ مضبوط ہوگا فرقہ پرست طاقتوں کی پسپائی طے ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

م. افضل

گزشتہ 12 ستمبر کو کانگریس ہیڈکواٹر میں پارٹی لیڈروں کی ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی جس سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی نے ملک کے موجودہ سیاسی وسماجی حالات کے پس منظر میں پارٹی لیڈروں سے کہا کہ جمہوریت کو زندہ و پائندہ رکھنے کی لڑائی صرف سوشل میڈیا پر جارحانہ رخ اپنانے سے نہیں جیتی جاسکتی بلکہ اس کے لئے لیڈروں اور کارکنان دونوں کو حکومت کے خلاف مورچہ کھولنا ہوگا انہوں نے انتباہ کیا کہ جمہوریت کو ایک طرف جہاں شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں وہیں موجودہ حکومت عوامی مینڈیٹ کا ناجائز استعمال کر رہی ہے، انہوں نے اعتراف کیا کہ عوامی سطح پر لوگوں اور پارٹی کے درمیان وابستگی کم ہوئی ہے اور اس کے لئے ہمیں عوام کے پاس واپس جانا ہوگا۔

بادی النظر میں دیکھیں تو سونیا گاندھی نے یہ کہہ کر کہ ہمیں عوام کے پاس جانا ہوگا پارٹی لیڈروں اور کارکنان کو ایک طرح کا گرومنتر دے دیا ہے اسے ایک ایسے روڈمیپ کا نام بھی دیا جاسکتا ہے کہ جس پر چل کر کانگریس کی کمزور ہوچکی بنیادوں کو ایک بار پھر مضبوط کیا جاسکتا ہے، جو لوگ سیاست پر گہری نظررکھتے ہیں وہ اس بات سے یقینا واقف ہوں گے کہ سونیا گاندھی انتہائی متحرک خاتون ہیں، ناموافق حالات میں بھی وہ مایوس نہیں ہوتیں بلکہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں اور دوسروں کو حوصلہ بھی دیتی رہتی ہیں، نرسمہاراؤ کے دورحکومت کے بعد ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک کانگریس اقتدار سے باہر رہی اس دوران کئی غیر کانگریسی سرکاریں بنیں اس وقت بھی کانگریس کو تقریباً آج کے جیسے حالات کا سامنا تھا لیڈروں کے ساتھ ساتھ پارٹی کارکنان میں بھی مایوسی نمایاں تھیں، اور مخالفین زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ کر رہے تھے کہ اب کانگریس کا دور ختم ہوچکا ہے، بلاشبہ کانگریس کے لئے یہ ایک نازک دور تھا اور اس نازک دورمیں ہی سونیا گاندھی نے پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کا فیصلہ کیا تھا اور پھر سب نے دیکھا کہ 2004 میں کانگریس نے شاندارطریقہ سے واپسی کی، یوپی اے کی سرکار بنی اور ڈاکٹرمنموہن سنگھ کو وزیراعظم منتخب کیا گیا اس کے بعد پانچ برس کے دوران یوپی اے سرکار نے کئی غیر معمولی فیصلے لئے اور ملک کو اقتصادی ترقی کی راہ پر لانے کا ایک روڈمیپ تیار ہوا، دیہی علاقوں کی ترقی کے لئے متعدد تاریخی منصوبوں کا اعلان ہوا جس سے اس عام آدمی کو فائدہ پہنچا جو ووٹ تو دیتا ہے مگر اقتدارکے گلیاروں تک اس کی آواز نہیں پہنچ پاتی اور نہ ہی اس کے بنیادی مسائل پر توجہ دی جاتی ہے، منموہن سرکار نے اس خلا کو پر کرنے کے لئے کسانوں اورمزدوروں کو ذہن میں رکھ کر ایسے ترقیاتی منصوبے تیار کیے جن سے ایک طرف جہاں اگر ملک اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہوا وہیں کسانوں اورغریب طبقات کی زندگی میں انقلابی تبدیلی رونما ہوئی۔


انہیں ترقیاتی منصوبوں اور ملک کے عام شہریوں کو ساتھ لے کر چلنے کا نتیجہ تھا کہ 2009 میں جب پارلیمانی الیکشن ہوئے تو کانگریس ایک بار پھر سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور ایک بار پھر اس کی قیادت میں یوپی اے کی سرکاربنی، اس وقت ملک کے جو سیاسی اور سماجی حالات ہیں یہ ملک کے عوام اور کانگریس دونوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں، اقتدار کے نشہ میں ملک کو جس طرف لے جانے کی دانستہ کوشش ہو رہی ہے اگر مودی سرکار اس میں کامیاب ہوگئی تو پھر نہ تو آئین بچے گا اور نہ جمہوریت باقی رہ سکے گی، سونیا گاندھی کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ عوام نے بی جے پی کو جو مینڈیٹ دیا ہے اس کا دھڑلے سے غلط استعمال ہورہا ہے، مودی سرکار نے پچھلے کچھ عرصہ میں جو غیر آئینی وجمہوریت مخالف فیصلے اپنی اکثریت کی اکڑ میں کیے ہیں اس کے منفی اثرات آج بھلے ہی لوگوں کو نظرنہ آئیں لیکن آگے چل کر جب اس کے منفی اثرات نمایاں ہوں گے تو یہ ہماری جمہوریت اور آئین دونوں کے لئے تباہ کن ثابت ہوںگے۔

ان حالات میں کانگریس کی ذمہ داری اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس کی طویل جدوجہد اور قربانی کے نتیجہ میں ہی ملک آزاد ہوا اور آزادی کے بعد کانگریس نے ہی اس ملک کو بنایا اور سنوارا ہے، اس کے لیڈران آزادی کے بعد بھی ملک و قوم کے لئے قربانیاں دیتے آئے ہیں اس لئے کانگریس ملک کو اس طرح تباہ ہوتے ہوئے ہر گز ہرگز نہیں دیکھ سکتی، ملک اقتصادی تباہی کے دہانے پر تو اب پہنچا ہے نظریاتی اور سماجی دہانے کی تباہی پر تو اسے پچھلے پانچ سال کے دوران ہی پہنچادیا گیا ہے، مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے کی جو لکیر کھینچ دی گئی وہ وقت گزرنے کے ساتھ مزید گہری اور چوڑی ہوتی جارہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پر جہاں سماج کو تقسیم کرنے والے عناصرکو سرکاری طور پر تحفظ اور پشت پناہی حاصل ہے وہیں سرکار میں شامل لوگ بھی اس خطرناک مہم میں پیش پیش ہیں۔


اس سے زیادہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ملک کا وزیراعظم خود اس مہم کو ہوا دیتا رہا ہے، ابھی حال میں ایک جگہ عوامی تقریب میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ جب گائے اور اوم کی بات ہوتی ہے تو کچھ لوگوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں، واضح ہوکہ پچھلے کچھ سالوں سے گائے کے نام پر ہی سیاست ہو رہی ہے اور گائے کے تحفظ کی آڑ میں بے گناہوں کو بھیڑ کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے، اور جو لوگ ایسا کر رہے ہیں انہیں سزا بھی نہیں مل رہی ہے بلکہ پولس اور انتظامیہ کے ذریعہ ایسے لوگوں کو قانون کی گرفت سے بچانے کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے تبریز انصاری اور پہلوخاں کے معاملے اس کا بین ثبوت ہیں۔

ملک کے ماہرین اقتصادیات اور دانشور، اقتصادی بحران کو لیکر بار بار سرکار کو انتباہ کر رہے ہیں، بازاروں میں مندی کا دور دورہ ہے کارخانے اور فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں بے روزگاروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے نوجوان نسل بے روزگاری سے تنگ آکر مایوسی کا شکار ہوچکی ہے مگر جو لوگ اقتدار میں ہیں انہوں نے اس طرف سے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں، سابق وزیر اعظم ڈاکٹرمنموہن سنگھ جو اقتصادیات کے شعبہ میں دنیاکے چند گنے چنے لوگوں میں شمار کیے جاتے ہیں جب یہ کہتے ہیں کہ ملک اقتصادی بحران کا شکار ہو چکا ہے تو ان کی بات کو مسترد کر دیا جاتا ہے اور مودی سرکارکے وزراء اپنے مضحکہ خیز بیانات سے عوام کو بہلانے کی کوشش کرتے ہیں، دوسری طرف ہمارے وزیراعظم ان ریاستوں میں جب ریلیاں کرنے جاتے ہیں جہاں جلد ہی اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں تو وہ اقتصادی مندی، بے روزگاری اورعوام کے مسائل پر بات نہیں کرتے بلکہ فخر سے یہ کہتے ہیں کہ ابھی تو یہ سو دن کا ٹریلر ہے فلم آنی باقی ہے، جب ٹریلر کا حال اتنا بھیانک ہے تو مکمل فلم لوگوں پر کیسی قیامت ڈھائے گی کچھ نہیں کہاجا سکتا البتہ اس طرح کی تقریروں سے وزیر اعظم اور ان کی سرکار کی بے حسی وغیر سنجیدگی کا برملا اظہار ہوجاتا ہے۔


ہر چند کہ ڈاکٹرمنموہن سنگھ کی باتوں کو حکمراں طبقہ مسلسل مسترد کرتا آیا ہے لیکن ایک سچے محب وطن ہونے کے ناطے وہ ملک کو اس طرح تباہ وبرباد ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے شاید اسی لئے وہ مسلسل انتباہ کرتے رہے ہیں، ابھی حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ اس بات سے وہ انکار نہیں کرسکتے کہ ملک اقتصادی بحران کا شکار ہوچکا ہے ایسے میں ملک کو اقتصادی چینلجوں سے جلد باہر نکالنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ میڈیا میں سرخیاں بننے کی سیاست سے سرکار باہر نکلے۔ انہوں نے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ہمیں اتنا بڑا مینڈیٹ نہیں ملا تھا اس کے باوجود ہم نے کئی غیر معمولی کام کیے، 1991 کے بحران اور 2008 کے عالمی اقتصادی بحران سے ملک کو کامیابی کے ساتھ باہر نکالا، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ موجودہ بحران سے نمٹنے کے لئے سرکارکو شفافیت کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اپنے کام کے بارے میں لوگوں کو بتانا سرکار کا حق ہے لیکن سرکار زیادہ عرصہ تک اقتصادی حالت سے انکار نہیں کرسکتی ملک انتہائی تشویشناک اقتصادی بحران کے بھنور میں پھنس چکا ہے، یہ بات کوئی ایرا غیرا نہیں ڈاکٹر منموہن سنگھ کہہ رہے ہیں مگر سرکار اقتدارکے نشہ میں مست ہے اور ہمارے وزیراعظم لوگوں کو سودن کا ٹریلر دیکھا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جنہوں نے خود کو ملک اور قانون سے اوپر سمجھا وہ آج ضمانت کے لئے منتیں کر رہے ہیں، یہاں ان کا اشارہ ان کانگریسی لیڈروں کی طرف ہے جنہیں سی بی آئی اور ای ڈی نے سرکارکے اشارہ پر گرفتارکیا ہے۔


جہاں انتقامی جذبہ سے کام کرنے کو ہی اپنی حصولیابی سمجھا جائے اور اس کا عوام میں فخرکے ساتھ پروپیگنڈہ بھی کیا جائے وہاں یہ توقع کرنے کی حماقت بھلا کون کرسکتا ہے کہ ڈاکٹرمنموہن سنگھ کے انتباہ اور مشوروں کو کوئی اہمیت دی جائے گی، سونیا گاندھی اس بات کو محسوس کرچکی ہیں اور اسی لئے انہوں نے اس روز میٹنگ میں یہ بات بھی کہی کہ لوگ اب ہماری طرف پرامید نظروں سے دیکھ رہے ہیں اس لئے اب ہمیں گھروں سے باہر نکل کر سڑکوں پر احتجاج اور مظاہرے کرنے ہوں گے انہوں نے یہ بھی کہا کہ گاندھی، نہرو، پٹیل اور ڈاکٹر امبیڈکر کے نظریہ کو اپنے سیاسی مقصد کے لئے حکمراں طبقہ کے لوگ توڑ مڑوڑ کر پیش کررہے ہیں، ہمیں اس کا پردہ فاش کرنا ہوگا درحقیقت حالیہ کامیابی نے بی جے پی کے لوگوں کو غرور میں مبتلاکردیا ہے، اور شاید اسی لئے ان لوگوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ وہ کانگریس مکت بھارت کے خواب کو پورا کرلیں گے مگر وہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ کانگریس اس ملک کے رگ و ریشہ میں شامل ہے اور آج بھی وہ فرقہ پرست طاقتوں کا ہر سطح پرمقابلہ کر رہی ہے، امید افزا بات یہ ہے کہ سونیا گاندھی نے نہ صرف مرض کو تلاش کرلیا ہے بلکہ اس کا علاج بھی ڈھونڈ نکالا ہے اور اسی لئے انہوں نے عوامی رابطہ کو مضبوط کرنے کے لئے پارٹی لیڈروں کو عوام کے پاس جانے کی تلقین کی ہے، کانگریس کا عوام سے رابطہ ٹوٹا نہیں ہے بس کچھ کمزور ہوگیا ہے اور جس دن یہ مضبوط ہوگا فرقہ پرست طاقتوں کی پسپائی طے ہے۔

(م ۔افضل)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Sep 2019, 10:10 PM