ترقی اور خوشحالی کو ووٹ، فرقہ پرستی کو ٹھینگا!... نواب علی اختر

موجودہ انتخابات سے صاف اشارے مل رہے ہیں کہ عوام نے نفرت اور فرقہ وارانہ تقسیم کو بڑھاوا دینے والوں کو بے دخل کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

نواب علی اختر

اترپردیش کے عوام بالخصوص نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے ووٹ کے حق کا استعمال بڑی سمجھداری اور دانشمندی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ خواتین، مردوں اور بزرگوں نے بھی نوجوانوں کے مستقبل کو پیش نظر رکھ کر جس دوراندیشی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ریاست میں بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے کیونکہ موجودہ انتخابات میں دیکھا جا رہا ہے کہ کچھ مفاد پرست لوگ مذہبی لبادہ اوڑھے سیاسی اکھاڑے میں کود پڑے ہیں، تاکہ فرقہ پرستوں، عوام کو تقسیم کرنے اور اقلیتوں کے خلاف زہرافشانی کرنے والوں کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔ ایسے وقت میں ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے عوام پر پورے ملک کی نظریں مرکوز تھیں کہ اس استحصالی قوم کا رخ کیا ہوگا لیکن ریاست کے پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے مرحلے کی ووٹنگ میں اندازوں اور خبروں کے مطابق نوجوانوں نے ترقی کو ووٹ دیا ہے اور فرقہ پرستی کو ٹھینگا دکھا دیا ہے۔

آج کی تحریر میں اترپردیش کے اودھ علاقے کا خاص طور پر ذکر کروں گا جہاں ہر انتخابات میں مسلمان ووٹروں کی کافی اہمیت ہے اور اس میں لکھنؤ سرفہرست ہے۔ یہاں نوجوانوں نے فرقہ اور مسلک سے بالاتر ہوکر ریاست میں امن وامان کے ساتھ ترقی اور خوشحالی کو ووٹ دے کر اپنے ارادوں کا اظہار کرکے تنگ نظر سیاسی جماعتوں کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ ہم وطن عزیز کو ترقی یافتہ اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ تبھی ہوگا جب ملک میں اتحاد واخوت کا ماحول ہوگا اورامن وامان کے ساتھ عوام کو زندگی گزارنے کا موقع ملے گا۔ اسی لئے انہوں نے ملک کو آگے چل کر سرمایہ دارانہ نظام، فسطائیت کے ٹھیکیداروں کے اقتدار سے نجات دلانے کی ٹھان لی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کو لڑاکر ووٹ حاصل کرنے والے اب آپس میں جوتم پیزار ہوگئے ہیں۔


کچھ روز قبل لکھنؤ کے بارے میں ایک اندیشہ پیدا ہوگیا تھا جب عالم دین کہلانے والے ایک صاحب نے منجھے ہوئے سیاستداں کی طرح لوگوں سے بہت ہی مبہم انداز میں فرقہ پرستوں کو ووٹ دینے کی اپیل کی، لیکن بادی النظر میں ان کی اپیل کا کوئی اثر نہیں ہوا اور لوگ یکطرفہ طور سے سیکولر پارٹیوں کے حق میں نظر آئے۔ مولانا کی اپیل موجودہ ماحول میں ملکی، ملی مفاد سے زیادہ ذاتی مفاد پر مبنی کہی جاسکتی ہے۔ بہرحال ان کا جو بھی تجزیہ ہو وہ اپنے اندر کے احوال کو بہتر جانتے ہیں۔ لیکن ابتدائی طور پر جو اندازے ظاہر کئے جا رہے ہیں ان میں یہی کہا جا رہا ہے کہ مسلم نوجوانوں نے ظالم فسطائی طاقتوں کو کمزور کرنے کے لیے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا ہے۔ ان حالات میں یہی امید کی جاسکتی ہے کہ جس طرح اجتماعی طور سے سیکولر اور ترقی پسند سیاسی جماعتوں کی طرف نوجوان رجوع کر رہے ہیں وہ یقیناً نیک فال ہے۔

بتادیں کہ پچھلے دنوں ایک مشہور عالم دین نے ایک ویڈیو جاری کرکے بالواسطہ طور پر کانگریس، سماج وادی پارٹی کے بجائے بی جے پی کو ووٹ دینے کی بات کہی تھی۔ اس ویڈیو سے کچھ دیر کے لیے یہ رحجان قائم ہوگیا تھا کہ شیعہ ووٹ بی جے پی کو ملیں گے مگر فوری طور پر کمیونٹی کے دیگر ذمہ داران نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس کے ذریعہ مولانا کی اپیل کے خلاف بیانات جاری کرنا شروع کر دیئے، تاکہ بڑے نقصان سے بچا جاسکے۔ ان پوسٹوں میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ مولانا نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ بی جے پی کے سینئر لیڈران کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کہا ہے۔ اس کے رد میں فرقہ کے دیگر علماء نے بر وقت بیانات جاری کر کے سیکولر اور ترقی پسند جماعتوں کو حمایت دینے کا اعلان کرتے ہوئے عوام سے ’حق کا ساتھ دیں اور ظالم کو نہ چنیں‘ کی اپیل کی، جس کا زبردست اثر بھی ہوا۔


اس طرح اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ نے بدھ کے روز اسمبلی انتخابات کے چوتھے مرحلے میں سب سے زیادہ رائے دہی (تقریباً 60 فیصد) کا تناسب قائم کرکے آزاد ہندوستان میں نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اس سے پہلے 2017 میں اس شہر میں 58.54 فیصد رائے دہی درج کی گئی تھی۔ ریاست کے 59 اسمبلی حلقہ جو اترپردیش کے 9 اضلاع میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان میں لکھنؤ کو مرکزیت حاصل ہے، جس کی مشترکہ آبادی ہے اور گلوبل کلچرل انڈیکس میں بھی تناسب بہت اونچا ہے۔ یہاں رائے دہی کا تناسب بڑھنے کا سہرہ اس ہجوم کے سر جاتا ہے جو بی جے پی کی عوام دشمن پالیسیوں سے بیزار ہیں۔ نظر انداز کئے جانے والے، بدسلوکی کا شکار اور دیوار کو لگا دئیے گئے، اقلیتوں نے تبدیلی کی بے چینی کے ساتھ ووٹ کرکے اپنا بی جے پی مخالفت رحجان دیا ہے۔

پولنگ اسٹیشنوں کے باہر برقعہ پوش خواتین اور ٹوپی لگائے ہوئے باریش مردوں کی طویل قطاروں پر مشتمل نظارے واضح طور پر یہ ظاہر کر رہے تھے کہ شہر سے بھگوا مشنری کو وہ کس قدر بے چینی سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہاں پر صرف رائے دہی کے تناسب میں ہی اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ یہاں پر ایک تبدیلی بھی آئی ہے جو قابل غور ہے۔ نمبروں کے ریکارڈ کے ساتھ ساتھ لکھنؤ سماجی تانے بانے کے لیے بھی مشہور ہے جہاں شاید پہلی بار مذہب ومسلک سے بالاتر ہوکر شیعہ -سنی نے متحدہ طور پر ووٹ کرتے ہوئے اس کو مزید مضبوط کیا ہے۔ یہ مجموعی طور پر بی جے پی بمقابلہ اقلیت تھا جس میں اگر مگر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اقلیتوں نے صرف مخالف بی جے پی جذبات کے ساتھ ووٹ دیا ہے، ائمہ یا مولانا کی کسی بھی اپیل پر توجہہ نہیں دی ہے۔


موجودہ انتخابات سے صاف اشارے مل رہے ہیں کہ عوام نے نفرت اور فرقہ وارانہ تقسیم کو بڑھاوا دینے والوں کو بے دخل کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ اس الیکشن میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے عقلی قانون کو نفاذ کرنے کا استفسار کیا ہے۔ شیعہ کمیونٹی کی بی جے پی سے نفرت کی وجہ یوگی آدتیہ ناتھ کا وہ بیان بھی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’اگر ان کے پاس علی ہیں تو ہمارے پاس بجرنگ بلی‘ ہیں۔ اس پر شیعہ کمیونٹی سخت ناراض ہے۔ شیعہ کمیونٹی کی ناراضگی کی دوسری اہم وجہ پچھلے دوسالوں سے یوگی حکومت کی جانب سے ماہ محرم میں جلوس اور تعزیہ کی اجازت دینے سے انکار بھی ہے۔ شیعہ کمیونٹی نے اپنے اتحاد سے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ وہ ان کے مذہبی جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے کسی بھی فرد کو کبھی معاف نہیں کرتے ہیں۔

اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ کانگریس ودیگر سیکولر پارٹیوں نے ملک کو دستور اور آئین کے مطابق چلانے کی کوشش کی جس میں ہر طبقے کو مساوی حقوق حاصل ہوں اور اتحاد و اخوت کی مضبوط طاقت کے ساتھ ملک لگاتار ترقی کی راہ پر گامزن رہے، مگر پچھلے چند سالوں میں کچھ تنگ نظر لوگوں نے ترقی اور بھائی چارہ کی بجائے قوم پرستی کی ایک نئی سیاست قائم کرنے کی کوشش کی، جس کی بنیاد خوف اور استحصال پر رکھی گئی ہے ان کے منشور میں ملک کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے والے نوجوانوں، خواتین، بے روزگاری، اظہار رائے کی آزادی جیسے اہم مسائل کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود یہ لوگ خود کو ’راشٹر بھکت‘ کہتے نہیں تھکتے ہیں۔ ان لوگوں کا مقصد صرف اور صرف ملک کی تاریخ کو مسترد کرکے اپنی گڑھی ہوئی آئیڈیا لوجی تھوپنا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔