الیکشن2019: جب واجپئی 2004 میں ہار گئے تھے تو اَب مودی کا کیا ہوگا؟

58 سال بعد کانگریس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس مودی اور شاہ کے گڑھ میں ہو رہا ہے، وہ بھی اس وقت جب یہ دونوں افراد حکمراں جماعت کے سب سے طاقتور اشخاص ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوچکا ہے اور تمام پارٹیوں نے اپنی اپنی انتخابی حکمت عملی تیار کرلی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ بی جے پی کی واپسی کے لئے تمام ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ ان دونوں کی کوششوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ملک میں ان کو اچھی حکومت نہیں بلکہ کسی بھی طرح اپنی حکومت چاہیے کیونکہ خود ان کی پارٹی کے جتنے قدآور رہنما ہیں وہ ان کے ساتھ اس کوشش میں کسی جوش کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔ ایسے حالات اور ماحول میں کانگریس نے ان دونوں کے گھر میں جاکر کانگریس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سال 1961 کے بعد اب سال 2019 میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کا اہم اجلاس گجرا ت میں ہو رہا ہے۔ کانگریس جس کی آزادی کے بعد لوک سبھا میں پچھلی بار سب سے کم نمائندگی تھی اس نے اس اہم اجلاس کے لئے گجرات کا انتخاب کرکے اپنی مخالف حکمراں جماعت کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ کسی بھی حالت میں بیک فٹ پر بلے بازی نہیں کرے گی اور اپنے سیاسی مخالفین کی ہر گیند پر آگے بڑھ کر بلے بازی کریں گے۔ گجرات میں 58 سال بعد کانگریس ورکنگ کمیٹی اجلاس کے انعقاد سے کانگریس کے تیوروں کا صاف پتہ لگ جاتا ہے۔

حکمراں جماعت بی جے پی کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ ان کے لئے یہ انتخابات آسان نہیں ہیں، کیونکہ ان کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ سال 2004 میں اٹل بہاری واجپئی حکومت کے حالات موجودہ حکومت سے کافی اچھے تھے، ان سے سوال بھی کم کیے جا رہے تھے اور پورے ملک میں اندیا شائننگ کا ڈنکا بج رہا تھا، لیکن ان حالات میں بھی عوام نے اپنی رائے اٹل بہاری واجپئی کے خلاف دی تھی۔ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو یہ بھی اندازہ ہے کہ نریندر مودی کی مقبولیت آج بھی اٹل بہاری واجپئی کے برابر نہیں ہے۔ ساتھ ہی سال 2004 میں کانگریس کے تیور ایسے جارہانہ نہیں تھے جیسے آج ہیں۔ آج جہاں بی جے پی کو کئی چبھتے سوالوں کے جواب دینے ہیں، وہیں تین ریاستوں میں حکومت بنانے کے بعد کانگریس کے اعتماد میں کافی اضافہ ہے۔ ان حالات کی روشنی میں تو نہیں لگتا کہ نریندر مودی کی اقتدار میں واپسی ہو سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Mar 2019, 2:09 PM