یوگی راج میں اتر پردیش ’جنگل رَاج‘ میں تبدیل... ظفر آغا

یوگی راج میں جمہوریت کا قتل ہو رہا ہے۔ اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی منمانی کے آگے کوئی زبان نہیں کھول سکتا ہے۔ پھر بھی یوگی آدتیہ ناتھ کا چہار سو ڈنکا بج رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

اتر پردیش ان دنوں ہندوستان کا وہ عجیب و غریب صوبہ ہے جہاں امبیڈکر کا آئین کام کرنا بند کر چکا ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ وہاں کون سا آئین اور قانون چل رہا ہے! جناب صوبہ کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا حکم ہی وہاں کا آئین اور وہاں کا قانون ہے۔ پولس جس کو چاہے مار دے، جس کی املاک چاہے قرق کرے اور جس کو چاہے گھر میں گھس کر دھمکی دے، کوئی نہ پوچھنے والا ہے اور نہ گچھنے والا ہے۔ ان دنوں یو پی کیا سارے ہندوستان میں وکاس دوبے کے انکاؤنٹر کی گونج ہے۔ خبریں یہ ہیں کہ وکاس دوبے بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یوگی جی کی پارٹی کے بہت قریب تھے۔ کانپور اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ان کا رعب و دبدبہ قائم تھا۔ لیکن جب انھوں نے 8 پولس والوں کی جان لے لی تو لکھنؤ میں یہ سوال اٹھ گیا کہ بھلا یو پی میں یوگی جی سے بڑا شیر کون آ گیا۔ ظاہر ہے کہ اب یہ تو یوگی جی کی ناک کا سوال ہو گیا۔ بھلا ایک میان میں دو تلواریں کیسے رہ سکتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب وزیر اعلیٰ کی ناک کا سوال ہو تو پھر مدمقابل وکاس ہوں یا کوئی اور، بھلا پھر اس کی کیا بساط۔ چنانچہ پولس اہلکاروں کے مارے جانے کے فوراً بعد پہلے وکاس دوبے کا مکان زمین دوز کر دیا گیا۔ لوگوں نے کہا کہ بھائی وکاس دوبے نے جرم کیا تو اس کی سزا ملنی چاہیے، لیکن یہ اس کا مکان کس قانون کے تحت گرا دیا گیا۔ عرض کیا نہ کہ امبیڈکر کے آئین کے تحت پولس کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کا مکان ڈھا دے، لیکن جب وزیر اعلیٰ کی مرضی یہ ہو کہ سبق سکھاؤ تو لاقانونیت بھی قانون بن جاتی ہے۔

جی ہاں، یوگی آدتیہ ناتھ کوئی معمولی وزیر اعلیٰ نہیں ہیں۔ حضرت یو پی کے حاکمِ وقت ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر ان کا اتر پردیش سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ آپ کا تعلق پیدائشی طور پر اتراکھنڈ سے ہے، تعلیم بھی وہیں حاصل کی۔ حضور کا اصل نام بشٹ ہے۔ جناب اتراکھنڈ سے گورکھپور آ گئے۔ وہاں کے مشہور ناتھ پنتھ کے مٹھ سے جڑ گئے۔ پھر وہاں کے اس وقت کے مٹھ کے مکھیا سے قریب ہو گئے۔ بس پھر یوگی ہو گئے۔ اور حضرت تیز اتنے تھے کہ گرو کے انتقال کے بعد اسی گورکھ ناتھ مٹھ کے مکھیا یوگی آدتیہ ناتھ ہو گئے۔ وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس سے خاص قربت ہو گئی۔ مسلمانوں سے جناب کو خصوصی بیر بتایا جاتا ہے۔ ان کی ایک تقریر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے اس تقریر میں فرمایا کہ اگر مسلمان ایک ہندو ماریں گے تو ہم جواباً 100 مسلمان ماریں گے۔ یوگی کا تعلق گورکھپور میں ہونے والے ایک فساد میں بھی بتایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس فساد میں یوگی جی کی ہندو یوا واہنی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ صرف اتنا ہی نہیں، یوگی جی جب وزیر اعلیٰ بنے تو ان پر الٰہ آباد ہائی کورٹ میں قتل کے الزام میں ایک مقدمہ چل رہا تھا۔ یہ مقدمہ بعد میں یوگی حکومت نے اپنی اسپیشل پاور کا استعمال کر کے ختم کروا دیا۔ اگر آپ گورکھپور جائیں تو آج بھی اس قتل کے بارے میں چہ می گوئیاں سننے کو مل جاتی ہیں۔


اب آپ خود تصور کر سکتے ہیں کہ یوگی جی جیسے انسان کے ہاتھوں میں اقتدار آ جائے تو پھر کیا حال ہوگا۔ چنانچہ اتر پردیش میں ان دنوں جو برا حال ہے اس کا اندازہ اور سبب آپ سمجھ سکتے ہیں۔ یوگی جی کے دور حکومت کا طرہ امتیاز مسلم دشمنی تو ہے ہی۔ تب ہی تو یوگی جی کے اقتدار میں آتے ہی بھینس تک کے ذبیحہ پر پابندی لگ گئی۔ پورے صوبہ میں گوشت کی خرید و فروخت کا قحط ہو گیا۔ صوبہ میں گائے کے لیے خصوصی انتظام ہو گئے۔ ان کا مارنا تو درکنار، انگلی اٹھانا بھی گناہ ہو گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چند مہینوں میں اتر پردیش میں گایوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ کسی کا کھیت اور کھیتی محفوظ نہ رہ گئی۔ کسان راتوں میں جاگ جاگ کر اپنے کھیت کی رکھوالی کرتے۔ لیکن گائے کو نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے۔ جب کورونا کا قحط ٹوٹا تو لکھنؤ سمیت تقریباً تمام صوبہ میں پھر سے گوشت کی خرید و فروخت پر پابندی لگ گئی۔ لوگوں نے کہا کہ بھئی گوشت کا کورونا کی وبا سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یوگی جی کی بلا سے۔ مسلمان گوشت کھاتے ہیں اس لیے گوشت بند ہونا چاہیے... سو ہو گیا۔ اب جلد ہی عید آنے والی ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ اتر پردیش میں قربانی پر بھی پابندی لگ جائے۔ آخر یوگی جی کا جو حکم ہوگا وہی ہوگا۔

آپ واقف ہی ہوں گے کہ سی اے اے قانون مخالف تحریک پر یوگی جی کا اتر پردیش میں کیسا عتاب نازل ہوا تھا۔ صدف جعفر، دریاپوری اور درجنوں اتر پردیش کی مشہور و معروف شخصیات کو سی اے اے قانون مخالف ریلی میں شرکت کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان کو ضمانت بھی نہیں دی گئی۔ عدالت سے ہفتوں بعد ضمانت ملی۔ پھر جناب لکھنؤ میں حکومت نے جگہ جگہ اس ریلی میں شرکت کرنے والوں کے خلاف تمام الزامات کے ساتھ بڑے بڑے بورڈ لگوا دیے گئے۔ گویا یہ لوگ کوئی کالے چور ہوں اور یو پی میں انگریزوں کا راج ہو کہ حکومت وقت جو چاہے وہ کرے۔ آخر لوگ حکومت کے اس عمل کے خلاف کورٹ گئے تو کورٹ نے حکم دیا کہ یہ بورڈ اتارے جائیں۔ پھر بھی بورڈ نہیں اتارے گئے۔ آخر جب کورٹ نے پھٹکار لگائی تو کسی طرح بورڈ ہٹے۔ لیکن یوگی جی تو یوگی جی ہیں۔ وہ جس سے بیر ٹھان لیں وہ سکون سے کیسے جی سکتا ہے۔ چنانچہ اب ان تمام لوگوں پر لاکھوں روپے کا جرمانہ لگا دیا گیا ہے جنھوں نے سی اے اے مخالف قانون میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اس جرم میں ایک رکشہ والا بھی شامل ہے۔ کہتے ہیں اس پر 25 لاکھ کا جرمانہ عائد ہوا ہے۔ بھلا وہ کہاں سے یہ رقم لاتا۔ چنانچہ اب وہ قید کی زندگی جی رہا ہے۔ باقی سب کی زندگی بھی اجیرن ہے۔ حکم ہے کہ یہ پیسہ بھریں ورنہ ان کی املاک کی قرقی کر لو۔ دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ بیچاری صدف جعفر نے ہمارے رپورٹر کو بتایا کہ جب وہ جیل میں تھی تو پولس والے نے اس کے گھر میں گھس کر اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں سے کہا کہ تمھاری ماں سڑکوں پر پتھر چلاتی ہے۔ ارے صاحب یہ بھی کوئی بات ہے!


لیکن یو پی کا یہی حال ہے۔ یوگی جی کے خلاف ایک ٹوئٹ کیجیے اور آپ کے خلاف ایف آئی آر درج۔ حد یہ ہے کہ دہلی کے مشہور ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن نے ایودھیا کے معاملے پر کوئی ٹوئٹ کی اور ان کے خلاف ایف آئی آر ہو گئی۔ درجنوں صحافی پولس ایکشن جھیل رہے ہیں۔ ایک صحافی کیا، اپوزیشن لیڈروں کو بھی اجازت نہیں کہ وہ یوگی جی کے خلاف زبان کھول سکیں۔ اکھلیش یادو اور مایاوتی نے تو یوگی جی کے ڈر سے زبان پر تالا لگا لیا ہے۔ یوپی کانگریس صدر للّو جی نے یوگی کے خلاف دھرنا مظاہرہ کیا تو ان کو دو بار جیل میں ڈال دیا گیا۔

لب لباب یہ کہ یو پی میں یوگی راج کے تحت جمہوریت کا قتل ہو رہا ہے۔ ریاست میں جنگل راج ہے، قانون نام کی کوئی شے بچی نہیں ہے۔ اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی منمانی کے آگے کوئی زبان نہیں کھول سکتا ہے۔ مگر یوگی آدتیہ ناتھ کا چہار سو ڈنکا بج رہا ہے۔ جلد ہی ایودھیا میں رام مندر تعمیر کا کام شروع ہونے والا ہے۔ اس وقت ریاست میں کیا ہو، یہ سوچ کر ابھی سے کلیجہ کانپ جاتا ہے۔ الغرض یوگی راج میں اتر پردیش جنگل راج کا شکار ہے اور کہیں یوگی سے کوئی کچھ پوچھنے والا نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 11 Jul 2020, 12:11 PM