شاہین باغ کے 'مجرموں' کی گرفتَاری کیوں!... ظفر آغا

گرفتار لوگوں کو مثالی قید و بند کی تکالیف دے کر پوری مسلم قوم کی قوت ارادی کو کمزور کیا جا رہا ہے کہ آئندہ کبھی مسلمان شاہین باغ جیسی کسی دوسری تحریک شروع کرنے کی جرات نہ کر سکے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

ابھی پچھلے ہفتے یو پی کانگریس اقلیتی سیل کے صدر شہنواز عالم اپنے ساتھیوں کے ساتھ رات 9 سے 10 بجے کے درمیان گھر پر محو گفتگو تھے کہ یکایک سادے لباس میں 10-8 لوگ ان کے گھر کے اندر در آئے۔ انھوں نے چونک کر پوچھا کہ آپ کون اور ایسے گھر کے اندر کیسے آ گئے۔ تو جواب ملا کہ وہ پولس والے ہیں۔ جی ہاں، وہ سادے لباس میں پولس والے تھے جو شہنواز عالم کو گرفتار کرنے آئے تھے اور ان کو گرفتار کر منٹوں میں ہوا ہو گئے۔ دوسرے روز صبح یہ پتہ چلا کہ شہنواز عالم کا جرم یہ ہے کہ انھوں نے پاپولر فرنٹ کے ساتھ مل کر سی اے اے مخالف تحریک میں کام کیا تھا۔ اس لیے وہ اینٹی نیشنل ہو گئے اور پولس ان کو اٹھا کر لے گئی۔ شہنواز اس معاملے میں پکڑے جانے والے پہلے فرد نہیں کہ جن کو سی اے اے مخالف تحریک کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا۔ اس معاملے میں اب تک درجنوں افراد گرفتار ہو چکے ہیں۔ لکھنؤ کی سوشل ایکٹیوسٹ صدف جعفر اور سابق آئی پی ایس افسر دریاپوری، جامعہ کی طالبہ صفورا زرگر سے لے کر شہنواز تک اب تک نہ جانے کتنے لوگوں کو سی اے اے مخالف تحریک میں حصہ لینے کے سلسلے میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔ حد یہ ہے کہ دہلی کے شاہین باغ میں اکٹھا افراد کے لیے جن سکھ سردار جی نے اپنا گھر بیچ کر لنگر چلایا تھا، ان کا نام بھی ایف آئی آر میں شامل ہے۔

الغرض ہر اس شخص کو چن چن کر سزا دی جا رہی ہے جس نے سی اے اے مخالف تحریک میں نمایاں حصہ لیا تھا۔ آخر اس شاہین باغ سے شروع ہونے والی تحریک میں ایسی کیا بات تھی کہ اس میں شرکت کرنے والے اب ملک دشمن ٹھہرائے جا رہے ہیں! حقیقت تو یہ ہے کہ شاہین باغ تحریک ایک انتہائی پرامن تحریک تھی۔ اس تحریک کی روح رواں بالخصوص مسلم سماج کی عورتیں تھیں۔ ان کی بے چینی یہ تھی کہ سی اے اے قانون کے تحت ان کے بچوں کی ہندوستانی شہریت ختم کر دی گئی تو ان کا کیا ہوگا۔ اس لیے انھوں نے دہلی کی زبردست ٹھنڈ میں دسمبر سے لے کر فروری کے لگ بھگ آخر تک دن رات کم و بیش کھلے آسمان کے نیچے پرامن دھرنا دیا تھا۔ اس پرامن تحریک کا اتنا زبردست اثر ہوا کہ پورے ملک میں جگہ جگہ عورتوں کے ویسے ہی دھرنے سی اے اے قانون کے خلاف شروع ہو گئے۔ ملک کے غیر مسلم سیکولر ہندو، سکھ، عیسائی تمام قومیں اس تحریک سے جڑ گئیں۔ شاہین باغ کو عالمی شہرت اور حمایت ملی۔ دنیا بھر میں درجنوں جگہوں پر اس کی حمایت میں ریلیاں اور جلسے ہوئے۔ آخر کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد اس تحریک کو ختم کر دیا گیا۔


شاہین باغ تحریک ہندوستان کی کوئی پہلی تحریک نہیں تھی۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور اس جمہوری ملک کا آئین ہر ہندوستانی شخص کو پرامن تحریک کا اختیار بخشتا ہے۔ اس لیے شاہین باغ تحریک میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس کو ملک دشمنی کا رنگ دیا جا سکے۔ اس کے باوجود اس تحریک میں شامل ہونے والے ہر نمایاں فرد کو ملک دشمنی کے الزام میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ آخر کیوں! اس کا واحد سبب یہ ہے کہ اس تحریک میں شامل ہونے والے خاص طور پر مسلمان تھے۔ صرف اتنا ہی نہیں، اس بار یہ مسلمان نعرہ تکبیر کی صداؤں یا جذباتی انداز کی بابری مسجد تحریک کی طرح کسی خالص مسلم پلیٹ فارم سے اپنی تحریک نہیں چلا رہے تھے۔ بلکہ شاہین باغ سے شروع ہونے والی تحریک میں شامل بچے بچے کے ہاتھ میں ملک کا آئین تھا اور ان کی مانگ یہ تھی کہ سی اے اے قانون آئین کی سیکولر روح کے مخالف ہے۔ اس لیے اس کو رد ہونا چاہیے۔ بس شاہین باغ تحریک کا یہی گناہ تھا۔ مودی حکومت میں آئین کی دہائی اور لفظ سیکولرزم دونوں سب سے بڑا گناہ ہے۔ جنگ آزادی کے بعد آئین کے تحت قائم سیکولر ہندوستانی ریپبلک اور اس کا آئین ہی تو سنگھ اور بی جے پی کو منظور نہیں ہے۔ ان کا ہندوتوا نظریہ اس آئین اور اس کی سیکولرزم کا نعم البدل ہے۔ اس ہندوتوا نظریہ کے تحت تمام اقلیتیں اور بالخصوص مسلم اقلیت اس ملک میں محض دوسرے درجے کی شہری حیثیت میں ہی رہ سکتی ہے۔ سی اے اے قانون کے ذریعہ خاص طور سے ہندوستانی مسلمان کی شہریت صلب کر اس کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی سازش تیار ہو چکی ہے۔ بھلا ایسے قانون کے خلاف مسلمان کی جرات کیسے ہوئی کہ اس نے ایک ایسی تحریک چلا دی جس نے پورے ملک کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔ بس اسی گناہ نے ان تمام افراد کا کہ جنھوں نے سی اے اے قانون مخالف تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا، اب ان کو چن چن کر سزا دی جا رہی ہے۔

صرف اتنا ہی نہیں بلکہ سی اے اے قانون مخالف تحریک کا ایک بہت اہم تاریخی کردار بھی تھا۔ اور وہ یہ کہ آزاد ہندوستان کی یہ پہلی مسلم تحریک تھی جس کا مسلمانوں کے ساتھ جڑے ہونے کے باوجود کوئی مذہبی کردار نہیں تھا۔ ورنہ آزادی کے بعد سے مسلمان اردو، بابری مسجد اور پرسنل لاء کے تحت تین طلاق جیسے تشخص اور مذہبی معاملات سے جڑی انتہائی جذباتی تحریک چلایا کرتے تھے۔ ایسی تمام تحریکیں عموماً علماء کرام کی نگرانی میں ہوتی تھیں۔ ایسی تحریکوں سے ہندو رد عمل پیدا ہوتا تھا جس سے وہ اپنی مسلم مخالف ہندوتوا تحریک چمکاتے تھے۔ اس کے برعکس شاہین باغ تحریک آئین اور آئینی حقوق کے لیے ایک انتہائی سیکولر اور پرامن تحریک تھی جس میں ہندو رد عمل کی کوئی بھی گنجائش نہیں تھی۔ اس کے برعکس شاہین باغ تحریک سے تو سیکولر ہندو، سکھ، عیسائی اور دوسری انصاف پسند عوام بھی جڑتےجا رہے تھے۔ بس یہی تو اس تحریک کا سب سے بڑا گناہ تھا۔ کیونکہ اگر اس ملک میں کوئی ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کا متحدہ پلیٹ فارم بن گیا تو پھر ہندوتوا سیاست کو پوچھے گا کون اور سنگھ و بی جے پی کی حیثیت کیا رہ جائے گی!


بس یہی دو جرم تھے سی اے اے قانون مخالف تحریک کے۔ اولاً، بھلا مسلمان سیکولر طرز پر کیسے اپنے آئینی حقوق کی پرامن جدوجہد سیکھ رہا ہے۔ دوسرے شاہین باغ کیوں ہندو، مسلم اور دیگر ہندوستانی مذہبوں کا ماڈل بنتا جا رہا ہے۔ یہ دونوں ہی عناصر بی جے پی کے لیے سخت مضر ہو سکتے ہیں۔ بس اسی لیے شاہین باغ تحریک میں نمایاں کردار ادا کرنے والوں کو چن چن کر گرفتار کیا جا رہا ہے۔ وہ چاہے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ زرگر ہو یا کانگریس اقلیتی سیل یو پی کے صدر شہنواز عالم، ان سب کو مثالی قید و بند کی تکالیف دے کر پوری مسلم قوم کی قوت ارادی کو کمزور کیا جا رہا ہے کہ آئندہ کبھی مسلمان شاہین باغ جیسی کسی دوسری تحریک شروع کرنے کی جرات نہ کر سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 05 Jul 2020, 10:11 AM