اتر پردیش: ڈگمگاتی کشتی میں سوراخ ہی سوراخ، اس لیے بدحواس ہے بی جے پی… کے سنتوش

جب لوک سبھا انتخاب کا اعلان ہوا تو بی جے پی کو ’مہابلی‘ تصور کیا جا رہا تھا، لیکن اب خود بی جے پی حامی اس بات کو لے کر تذبذب میں ہیں کہ پارٹی کو یوپی میں پچھلی بار کے برابر سیٹیں بھی ملیں گی یا نہیں۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر یو این آئی</p></div>

تصویر یو این آئی

user

کے. سنتوش

لوک سبھا انتخاب اپنے آخری مراحل میں ہے۔ اس کے باوجود سب سے زیادہ 80 سیٹوں والی ریاست اتر پردیش میں کوئی بھی پارٹی پورے یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتی کہ وہ کس جگہ مضبوط ہیں اور کہاں ان کی زمین کھسکی ہوئی ہے۔ اس درمیان بی جے پی لیڈران یہ تو ماننے ہی لگے ہیں کہ 2019 کے مقابلے میں اس بار مسائل کا سامنا ہے اور تقریباً ہر سیٹ پر ان کے ووٹ کم ہو رہے ہیں۔ سماجوادی پارٹی اور کانگریس کا اتحاد 2017 اسمبلی انتخاب میں بھی تھا، لیکن اس کے مقابلے اس بار انڈیا اتحاد زیادہ مضبوط ہے۔ پورے ملک میں لوگ راہل گاندھی کی باتیں دھیان سے سن اور دوہرا تو رہے ہی ہیں، یوپی کی کئی سیٹوں پر یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ووٹ تو اکھلیش یادو کو جا رہے ہیں۔ یعنی نریندر مودی کے برعکس لوگ یہاں اکھلیش کا نام بھی لے رہے ہیں۔

آئین بچانے کا ایشو ووٹرس کے سر چڑھ کر بولتا نظر آ رہا ہے۔ دراصل دیگر بی جے پی لیڈران کے علاوہ ایودھیا سے پارٹی رکن پارلیمنٹ للو سنگھ نے بھی آئین بدلنے کی بات عوامی طور پر کہی تھی۔ بھلے ہی وزیر اعظم مودی اب اسے چھپانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے کہہ رہے ہوں کہ سماجوادی پارٹی اور کانگریس ریزرویشن ختم کرنے کی سازش تیار کر رہے ہیں، دلتوں میں شبہ گھر بنا چکا ہے کہ آئین بدل کر ریزرویشن ختم کرنے کا منصوبہ بی جے پی تیار کر رہی ہے۔


پہلے بی جے پی مطمئن تھی کہ بی ایس دلت ووٹ سماجوادی پارٹی-کانگریس کی طرف نہیں جانے دے گی۔ 2019 کا انتخاب بی ایس پی نے سماجوادی پارٹی کے ساتھ لڑا تھا۔ تب سماجوادی پارٹی کا ووٹ بی ایس پی میں آسانی سے ٹرانسفر ہوا اور بی ایس پی کو 10 سیٹیں ملی تھیں۔ لیکن دلتوں کا ووٹ سماجوادی پارٹی کو منتقل نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس بار حالات بدلے ہوئے ہیں۔ بی ایس پی کی زمینی حالت کمزور ہے اور اس کا ووٹر کانگریس کی شکل میں اپنے پرانے ٹھکانے کے ساتھ کھڑے ہونے میں دقت نہیں دیکھ رہا۔ سماجوادی پارٹی چیف اکھلیش یادو نے کہا بھی کہ بی ایس پی کو ایک سیٹ بھی نہیں مل رہی۔ اس لیے بی ایس پی حامیوں کو انڈیا اتحاد کو ووٹ کرنا چاہیے، کیونکہ یہ اتحاد بابا صاحب امبیڈکر کے آئین کو بچانے کے لیے لڑ رہا ہے۔ ادیب امت کمار بھی مانتے ہیں کہ اس مرتبہ بی ایس پی کا دلت ووٹ تقسیم ہو رہا ہے۔ بی جے پی کی دلت ووٹوں پر دو انتخابات جیسی حصہ داری نہیں نظر آ رہی اور دلتوں کو کانگریس کے ساتھ آنے میں جھجک نہیں۔ یہ بدلاؤ ووٹ میں تبدیل ہوا تو بی جے پی کو یوپی میں ہاف ہونے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔ اس سب سے بی جے پی میں کتنی بے چینی ہے، اسے کشتی واقعہ میں بہت بدنام ہو چکے موجودہ رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ کی بات سے سمجھا جا سکتا ہے۔ سا بار ان کا بیٹا بی جے پی سے انتخاب لڑ رہا ہے۔ برج بھوشن نے ووٹ ڈالنے کے بعد قیصر گنج میں کہا کہ ’’بی ایس پی کے ووٹ سماجوادی پارٹی میں ٹرانسفر ہو رہے ہیں۔‘‘ ویسے انھوں نے یہ بھی جوڑا کہ ’’لیکن اس سے بی جے پی کو سیٹوں کا نقصان نہیں ہونے جا رہا۔‘‘

جب لوک سبھا انتخاب کا اعلان ہوا تو بی جے پی کو ’مہابلی‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا، لیکن اب خود بی جے پی حامی اس بات کو لے کر تذبذب میں مبتلا ہیں کہ پارٹی کو یوپی میں پچھلی بار کے برابر سیٹیں بھی ملیں گی یا نہیں۔ 2019 میں بی جے پی کو 62 سیٹیں ملی تھیں۔ یہ 2014 کے مقابلے میں کافی کم تھیں۔ تب پارٹی کو 72 سیٹیں ملی تھیں۔ دراصل زمین پر بات یہ چل رہی ہے کہ اس بار 2019 جتنی سیٹیں لانا بھی پارٹی کے لیے پہاڑ چڑھنے جیسا ہے۔


بی جے پی کو تین چار خاص وجوہات سے خواتین کے ووٹ کا بھروسہ ہے۔ نام نہاد برانڈ مودی، رام مندر اور راشن، رہائش اور گیس- یعنی استفادہ کنندگان۔ لیکن بی جے پی لیڈران و کارکنان اس پر بات بھی نہیں کرنا چاہتے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کی مار گھر کے بجٹ پر کس طرح بھاری پڑ رہی ہے۔ روزگار ہر گھر کو متاثر کر رہا ہے۔ ایک تو ملازمتیں کافی کم آ رہی ہیں، دوسری طرف لگاتار پیپر لیک نے مایوس کیا ہے۔ ویسے روزگار کا مطلب صرف سرکاری ملازمت سے ہی نہیں ہے۔ پرائیویٹ ملازمتیں بھی ریاست میں کم ہیں کیونکہ تمام دعووں کے باوجود صنعتوں کی حالت مایوس کن ہے۔ یہ بات ذیلی سطح پر بھی لوگ کہتے ہیں۔ مثلاً سلطان پور میں دوا کاروباری وجئے پانڈے بتاتے ہیں کہ ’’سڑکیں بہتر ہیں، بجلی ملتی ہے، نظامِ قانون میں بہتری ہوئی ہے، لیکن ایک بھی انڈسٹریل ایریا نہ ہونے سے صنعتیں نہیں لگ پا رہیں۔ ضلع کی سرحد سے گزر رہے پوروانچل ایکسپریس وے کے کنارے انڈسٹریل ایریا تیار کرنے کے لیے زمین نشان زد ہوئی لیکن اب تک کوئی ٹھوس کام نہیں ہوا۔‘‘ مئو میں ہاتھ سے ریشمی ساڑی بنانے کا کام کرنے والے غلام منصور کہتے ہیں کہ ’’کورونا میں لوٹے تو گھر مین کام کا بھروسہ ملا۔ اب ہم پہلے سے بھی زیادہ بدتر حالت میں ہیں۔‘‘ بی ایڈ کر رہے اجئے یادو بھی کہتے ہیں کہ ’’لوگوں کو پانچ کلو اناج نہیں، روزگار چاہیے۔‘‘ ایسا ہی درد ہر طرف نظر آتا ہے۔

اتر پردیش میں جن سیٹوں پر ووٹنگ ہونی ہے، سب پوروانچل میں ہیں اور کئی معنوں میں اہم بھی۔ وارانسی سے خود وزیر اعظم مودی میدان میں ہیں جبکہ یہ علاقہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا آبائی علاقہ اور میدانِ عمل بھی ہے۔ یوگی کے سامنے گورکھپور-بستی ڈویژن کی 9 سیٹوں پر پرانی کارکردگی دہرانے کا چیلنج ہے۔ 2019 میں بی جے پی نے ان سبھی 9 سیٹوں پر زیادہ فرق سے جیت حاصل کی تھی۔


آر ایس ایس کارکنان کے اس بار زیادہ سرگرم نہیں رہنے کا تذکرہ پورے ملک میں ہے۔ بی جے پی صدر جے پی نڈا کا وہ اخباری انٹرویو ان دنوں خوب موضوعِ بحث ہے جس میں انھوں نے بی جے پی کو پہلے کی طرح اب آر ایس ایس کی مدد کی ضرورت نہ ہونے کی بات کہی ہے، کیونکہ پارٹی اب مضبوط ہو گئی ہے۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ بھگوا دھاری یوگی کو آر ایس ایس اس طرح پسند نہیں کرتا جس طرح وہ ویسے لوگوں کی پیٹھ پر ہاتھ رکھتا ہے جو آر ایس ایس سے نکلے ہیں۔ یوگی گورکش پیٹھادھیشور بھلے ہوں، آر ایس ایس سے نہیں نکلے ہیں۔ گزشتہ دنوں یہ بحث بھی زور و شور سے چلی کہ اگر مودی-شاہ مرکز میں دوبارہ برسراقتدار ہوتے ہیں تو یوگی کو وزیر اعلیٰ عہدہ سے وداع کر دیا جائے گا۔ ایسے میں اس علاقے میں اس علاقے میں آر ایس ایس کی سرگرمی پر سب کی نظر ہے۔ آر ایس ایس کے لوگ گول مول باتوں کے لیے جانے جاتے ہیں، اس لیے اس علاقے میں آر ایس ایس سے جڑے ایک عہدیدار کی اس بات کا اپنے من مطابق جواب نکالنے کے لیے ہر کوئی آزاد ہے کہ ’ہم اسی طرح کام کر رہے ہیں جس طرح ملک بھر میں آر ایس ایس کے لوگ کرتے ہیں‘۔

اتنا ہی نہیں، بی جے پی کو اندرونی چپقلش کا بھی سامنا ہے جس کا اثر سیٹوں پر پڑ رہا ہے۔ پارٹی نے کچھ سیٹوں پر امیدوار تو بدلے لیکن جن پر پھر داؤ لگایا ان میں سے بیشتر کو لوگ ’تھکا چہرہ‘ بتا رہے ہیں۔ مچھلی شہر ریزرو سیٹ پر بی جے پی کے ہی سابق رکن اسمبلی ہریندر پرتاپ سنگھ اپنے لوگوں سے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ رکن پارلیمنٹ وی پی سروج نے 1000 سے زیادہ اعلیٰ ذات پر دلت استحصال کا مقدمہ درج کرا دیا ہے۔ جون پور میں صھافی کپل دیو موریہ کہتے ہیں کہ ’پچھلی بار محض 182 ووٹوں سے جیت درج کرنے والے وی پی سروج کے لیے اعلیٰ ذات کا ووٹ حاصل کرنا آسان نہیں ہے‘۔ اسی طرح بستی میں ہیٹ ٹرک کی دعویداری کرنے والے ہریش دویدی کے اشارے پر ہریا سے رکن اسمبلی اجئے سنگھ کی الیکشن ڈیوٹی وارانسی کے لیے لگا دی گئی تو انھوں نے فیس بک پر لکھ دیا ’میں چلا چندولی۔ بابا وشوناتھ کی نگری میں۔ بابا وشوناتھ ہم بستی والوں پر رحم بنائے رکھیں‘۔ مہاراج گنج ضلع میں وزیر مملکت برائے مالیات پنکج چودھری کو اپنے ہی اراکین اسمبلی کی مخالفت برداشت کرنی پڑ رہی ہے۔ سسوا سے رکن اسمبلی پریم ساگر پٹیل سے پنکج کی ناراضگی سبھی جانتے ہیں۔ سابق رکن اسمبلی بجرنگ بہادر سنگھ کی بھی پوری حمایت نظر نہیں آتی۔ رابرٹس گنج سیٹ پر رکن پارلیمنٹ پکوڑی لال کا برہمن اور کشتریہ سماج کو گالی دیے جانے کی مبینہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اپنا دل (ایس) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہیں ان کی بہو رنکی کول کی مصیبت بڑھ گئی ہے۔ اس معاملہ کو لے کر پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری ڈاکٹر راگھویندر پرتاپ سنگھ استعفیٰ بھی دے چکے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کی ڈگمگ کشتی کیسے کنارے لگے گی؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔